شاہ ملت کے ہمراہ لاتور میں دو دن! (سفر نامہ || قسط 2)

محمّد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
لاتور پر ایک نظر:
لاتور ہندوستانی ریاست مہاراشٹرا میں واقع ایک ضلع ہے جو مہاراشٹرا کا 16واں اور ہندوستان کا 120 واں بڑا شہر مانا جاتا ہے۔ لاتور کا رقبہ 12.57مربع میل یعنی 32.56 کلومیٹر ہے۔ جس کی مجموعی آبادی 6 لاکھ پر مشتمل ہے اور 515 میٹر سطح دریا سے بلندی پر واقع ہے۔ لاتور میں کل 10 تحصیل دفتریں اور کل 948 دیہات شامل ہیں۔ جس کی انتظامی سہولیت کیلئے ضلع کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جسکا ضلعی صدر لاتور ہے۔ یہاں کی بھی سرکاری زبان مہاراشٹرا کے دیگر اضلاع کی طرح ”مراٹھی“ ہے۔ اس کے علاوہ لاتور کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ جب ہم نے تاریخ کے اوراق الٹ کر تحقیق کرنے کی کوشش کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ لاتور کی اصل بنیاد راشٹرکوٹہ کے راجاؤں نے رکھی، جو یہاں کے باشندے تھے۔ جن کے دور حکومت میں لاتور کا نام ”لاٹالورو“ تھا۔ ایک اور جگہ اسکا نام ”رتنا پور“ بھی بتایا گیا ہے۔ راشٹرکوٹہ نے 753ء سے 973ء تک لاتور سمیت دکن پر راج کیا۔ ان کے بعد یہاں چالوکیاس، ڈوگری، دہلی سلطان، عادل شاہی، مغلوں وغیرہ نے بھی راج کیا۔ اس کے بعد 19ویں صدی میں لاتور حیدرآباد کا ایک حصہ بن گیا جہاں نظام حکومت کیا کرتے تھے اور 1905ء میں عثمان آباد ضلع کا تحصیل مقرر ہوا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد جب حیدرآباد ہندوستان میں شامل ہوگیا تو عثمان آباد کو بمبئی کی ریاست کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1960ء میں ریاست مہاراشٹرا کی تشکیل کے ساتھ عثمان آباد ایک ضلع بن گیا اور 16/ اگست 1982ء کو لاتور کو عثمان آباد سے الگ کرکے ایک الگ ضلع بنادیا گیا۔
لاتور کا تعلیمی اور تجارتی نظام:
لاتور کی مجموعی آبادی 6 لاکھ ہے جس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلمانوں کی تعداد ہے۔ یہاں کل 125 مساجد اور 15 مدارس عربیہ (قیام و طعام کے) آباد ہیں۔ جن میں مدرسہ مصباح العلوم سب سے قدیم یعنی پہلا اور مدرسہ مدینۃ العلوم سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اسی طرح مدرسہ مشکوۃ العلوم، کولپہ بھی سرفہرست ہے جو حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ کے زیر نگرانی میں رواں دواں ہے۔ یہاں کے مدارس عربیہ میں الحمد للہ بڑی تعداد میں مہمانان رسول زیر تعلیم ہیں، جہاں بہترین تعلیم بھی فراہم کی جاتی ہے. اسی طرح لاتور عصری تعلیمی لیاقت سے بھی کافی آگے ہے۔ یہاں تقریباً 140 کالجز اور یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ اسی کے ساتھ یہاں پرائیویٹ کوچنگ ادارے بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اطراف کے علاقوں کے طلباء کی ایک بڑی تعداد یہاں تعلیم کیلئے قیام پزیر ہے۔ لاتور کی تعلیمی لیاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے "Educational Hub” یعنی تعلیمی مرکز بھی کہا جاتا رہا ہے۔ تجارتی اور صنعتوں میں لاتور گنے، تیل، سویا بین، انگور، آم وغیرہ کی پیداواری کا مرکز بھی مانا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ لاتور کا خطہ "Indian Sugar Belt” کے نام سے مشہور ہے۔ چونکہ اس علاقے میں گیارہ سے زیادہ بڑے شوگر فیکٹریاں (چینی کے کارخانے) موجود ہیں۔ جن میں گنے کی بدولت اعلیٰ قسم کی چینی تیار کی جاتی ہے۔ تعلیم و تجارت کی مناسبت سے لاتور نے کافی نام کمایا ہے۔ الغرض 30/ ستمبر 1993ء میں لاتور میں ایک تباہ کن زلزلہ برپا ہوگیا تھا.چونکہ یہ زلزلہ صبح 3:30 کے قریب آیا تھا اور اس وقت پورا شہر نیند کے غلبے میں سو رہا تھا جسکی وجہ سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ تقریباً 10 ہزار سے زائد لوگوں کی جانیں چلی گئیں اور 30 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے تھے۔ یہ اتنا خطرناک زلزلہ تھا کہ نہ صرف فقط لاتور بلکہ اسکے ارد گرد علاقوں میں بھی اسکے اثرات دیکھے گئے تھے۔ اس زلزلہ نے لاتور کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس طرح کی آفات و بلیات سے ہم تمام کی حفاظت فرمائے۔ آمین
لاتور میں شاہ ملت کا استقبال:
حضرت شاہ ملت مدظلہ کے ہمراہ راقم الحروف اور دیگر رفقائے سفر بھائی محمد اسلام الحق اور انکے رفقاء کی رہبری میں تقریباً صبح 10:30 بجے کے قریب شولاپور سے بذریعہ کار شیخ طریقت حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم کی رہائش گاہ متصل مسجد حسینیہ، محلہ مدنی نگر، لیبر کالونی، لاتور پہنچے۔ جہاں پہلے سے مولانا اسماعیل صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ ہمارے استقبال کیلئے منتظر تھے۔ حضرت نقشبندی صاحب شاہ ملت اور ہم تمام مہمانوں کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے اپنے گھر لے گئے۔ تقریباً 15 سے 20 افراد حضرت کے ساتھ حضرت شاہ ملت کے استقبال کیلئے منتظر تھے۔
مولانا اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی کا تعارف:
شیخ طریقت حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی دامت برکاتہم پورے مہاراشٹرا کے ایک مشہور و معروف عالم دین ہیں۔ لاتور کے بزرگ ترین شخصیات میں آپکا شمار ہوتا ہے۔ شہر کا ہر عام و خاص آپ سے والہانہ تعلق رکھتا ہے۔ آپ نے سن 1974ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ ابتدائی دور میں مختلف مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیں۔ فی الوقت آپ مدرسہ مشکوٰۃ العلوم، کولپہ کے نگران، دارالعلوم دیوبند کے رابطہ مدارس عربیہ ریاست مہاراشٹرا کے ناظم عمومی اور صفاء بیت المال ضلع لاتور کے روح رواں ہیں۔ اسی کے ساتھ سن 2015ء میں شاہ ملت کی سفارش پر قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی دامت برکاتہم نے آپکو مجلس احرار اسلام مہاراشٹرا کا صدر نامزد کیا۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحب نے تصوف و سلوک میں بھی عظیم مقام حاصل کیا ہے۔ سن 2016ء میں قطب عالم حضرت مولانا حافظ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم نے آپکو سلسلہ نقشبندیہ و مجددیہ سے اجازت و خلافت عطاء کی۔ آپ شہر بھر میں مختلف دینی و ملی خدمات کے علاوہ تصوف کے سلسلے میں بڑی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہر ماہ کی تیسری اتوار کو آپ کی قیام گاہ سے متصل مسجد حسینیہ (بیادگار شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی) میں مغرب تا عشاء اصلاحی مجلس منعقد کروا کر امت مسلمہ کی پیاس بجھاتے ہیں۔ یقیناً آپ کے اندر عاجزی و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہے، کسی بھی عام و خاص کو آپکے انداز گفتگو سے آپکا دیوانہ بن نے میں دیر نہیں لگتی۔ چونکہ راقم الحروف کی حضرت والا سے یہ پہلی ملاقات تھی تو راقم ہی کچھ لمحات تک اس شک وشبہ میں پڑگیا تھا کہ محفل میں بیٹھے حضرات میں سے مولانا اسماعیل صاحب کون ہیں؟ انکی بلاتکلف مہمان نوازی اور عاجزی و انکساری کی مثال بہت کم ہی ملا کرتی ہے۔
مولانا اسماعیل صاحب کا شاہ ملت کے ساتھ عقیدت و محبت:
حضرت مولانا اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ حضرت شاہ ملت مدظلہ سے بڑی عقیدت و محبت فرماتے ہیں۔ دونوں حضرات کی گفتگو اور خیالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں حضرات ایک دوسرے کو اپنا اکابر تسلیم کرتے ہیں۔ الغرض گھر کے حال میں پانی اور چائے سے فراغت تک مختصر گفتگو ہوئی جسے راقم ”استقبالی مجلس“ سے منسلک کرنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران شرکاء مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے شیخ طریقت حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ نے شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب قاسمی مدظلہ کی شان اقدس میں تعارفی اور تاریخی کلمات کہتے ہوئے ایک حقیقت پر مبنی بات ارشاد فرمائی کہ ”اگر کسی کو دین کا جذبہ اور ایمان کی حرارت محسوس کرنی ہو تو حضرت شاہ ملت یا انکے شیخ کے پاس چلے جائیں، تمہارے اندر ایسا جذبہ سما جائے گا کہ تمہارے پیر کبھی نہیں ڈگمگائیں گے، اسکا ہم نے عملی مشاہدہ کیا ہے۔“ اسکے بعد مزید ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ ”جس طرح حضرت شاہ ملت سنت و بدعت، حلال و حرام اور امت مسلمہ کے بگڑے مسائل وغیرہ کو کھل کر بیان کرتے ہیں، اسکی مثال بہت کم ملتی ہے اور موجودہ دور میں انہیں کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ کہ آج بہت بڑا طبقہ ان مسائل سے ناواقف ہے لہٰذا جب تک ان کے سامنے ان تمام مسائل کو کھل کر بیان نہیں کریں گے تو اسے مسئلہ سمجھ ہی نہیں آئے گا۔“ الغرض مختصر گفتگو کے بعد یہ پرنور استقبالی محفل چائے پر اختتام پذیر ہوئی اور ہم ناشتے کی جانب بڑھے۔ مختصر ناشتہ سے فارغ ہوکرحضرت شاہ ملت نے چاشت کی نماز ادا کی۔ جس کے بعد ایک خصوصی میٹنگ حضرت شاہ ملت، مولانا اسماعیل صاحب، حافظ عبد الرحیم صاحب اور راقم الحروف خادم شاہ ملت بندہ محمّد فرقان عفی عنہ کے درمیان ہوئی۔ جس میں کچھ قانونی مسئلے اور دیگر وجوہات کی بنا پر محفل نکاح میں طے شدہ حضرت شاہ ملت مدظلہ کا بیان منسوخ کرنا پڑا۔ اور اسی کے ساتھ عشاء کے بعد منعقد علماء کی مجلس اور دوسرے دن کا جمعہ بیان کرنے کا ارادہ بھی منسوخ کردیا گیا۔ میزبانوں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اسے بخوشی قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ ”حضرت آپکا ہمارے یہاں آنا ہی ہمارے لئے سعادت کی بات ہے۔“ اس مشورہ کے بعد حضرت شاہ ملت سمیت تمام رفقاء سفر نے نماز ظہر تک آرام فرمایا۔
(اگلی قسط میں پڑھیں :: شاہ ملت کا خطبۂ نکاح اور نکاح خوانی کی پرنور محفل کی روداد)
+91 8495087865
[email protected]
Comments are closed.