اسلامی تاریخ کاہر ہرورق شہداء کے خون سے رنگین

—————————————-
✍ سرفرازاحمد ملی القاسمی
جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک، حیدرآباد، تلنگانہ —————————————-
شہید اللہ کے نام کی عظمت اورسربلندی کےلئے جان کی بازی لگاکر قربانی دیتاہے تواللہ تعالی اسکو بھی دنیاو آخرت میں اعزاز واکرام اورانعامات سے نوازتاہے، چنانچہ شہید کے جسم سے روح نکلتے ہی جنت کی حوریں اسکے دفنانے سے پہلے پہونچ جاتی ہیں اورمیدان کارزار کی گردوغبار اسکے رخسار سے جھاڑ کرصاف کرتی جاتیں ہیں اورکہتی جاتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو مٹی میں ملادے جس نے تیرے رخساروں کو گرد آلود کردیاہے،اور اللہ تعالی کے یہاں انکو یہ اعزاز مل جاتا ہے کہ عام انسانوں کو جنت میں جانے کاابھی فیصلہ بھی نہیں ہواہوگاکہ شہید بلاروک ٹوک جنت میں داخل ہوکر ہرجگہ سے لطف اٹھائے گااورہیلی کاپٹر کی طرح سواریوں میں سوار ہوکرپورے جنت کی سیروتفریح اوردیگر نعمتوں سے لطف اندوز ہوگااوررات اپنے خالق حقیقی کے جواررحمت میں عرش عظیم کے سائے میں گذاردےگا،قیامت کے دن انکو یہ اعزاز بھی حاصل ہوگاکہ وہ ستر ایسے لوگوں کی سفارش کرکے جنت میں لےجائے گاجنکے لئے دوزخ واجب ہوچکی ہوگی،اسلامی تاریخ کامطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسکا ہر ہرورق شہداء کے خون سے رنگین ہے،ایسابالکل نہیں ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں صرف نواسہ رسولؐ حضرت سیدناحسینؓ ہی انتہائی بے دردی سے شہید کردئیے گئے،یہ امت قربانی والی امت ہے اورجس امت میں قربانی والاجذبہ موجود ہو وہ کبھی بھی مٹ نہیں سکتی،اس امت کے سب سے معزز اورمقدس افراد حضرات صحابہؓ تھے،ان میں بیشتریعنی اکثر صحابہؓ شہید ہوچکے ہیں تب کہیں جاکر اسلام مشرق ومغرب میں پھیلا،دنیاکا وہ کونسا بڑاشہر ہے جس میں صحابہ کرامؓ کاخون نہ گراہو،وہ کونسا ملک ہے جہاں صحابہ کرامؓ کے شہداء کی لاشیں نہ مدفون ہوں،جب تک ہم بھی صحابہ کرامؓ کی طرح قربانی نہیں دیں گے اسلام کبھی بھی غالب نہیں آسکتا،اس امت میں صرف حضرت سیدنا حسینؓ نہیں ہوئے بلکہ اس امت میں لاکھوں شہداء موجود ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان شہداء کے کارناموں کو اپنائیں اورشہادت کی تمنابھی کریں،سیدنا حسینؓ کاواقعہ شہادت بلاشبہ بہت دردناک اورتکلیف دہ ہے،لیکن اسکایہ مطلب ہرگزنہیں کہ نواسہ رسولؐ کی شہادت پر یوم غم منایاجائے،ماتم کیاجائے،نوحہ خوانی کی مجلسیں لگائی جائیں اورشریعت سے کھلواڑ کیاجائے،نہ ہی اسلام ماتم کادین ہے اورنہ ہی نوحہ وماتم کرنے کی اجازت دیتاہے،کیونکہ شہادت کوئی رنج وغم کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ بلند اورقابل فخرمقام ہے جسکی تمنا خود سید الانبیاء ﷺ بھی باربارکرتے تھے اورفرماتے کہ”میں چاہتاہوں کہ اللہ کےراستے میں شہید ہوجاؤں،پھر زندہ کیاجاؤں،پھرشہید ہوجاؤں،پھرزندہ کیاجاؤں،پھرشہید ہوجاؤں”ایک حدیث میں آپ کاارشاد ہے کہ”بجز قرض کے شہید کےتمام گناہ معاف کیےجائیں گے”اب سوال یہ ہے کہ جب شہادت کامرتبہ اتنابلند ہے توپھراس پر خوشی کااظہار کیاجائے نہ کہ غم کا،ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ محرم الحرام کے آغاز پرایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی، خوشی و مسرت کااظہار کیاجاتا، نویں اوردسویں یادسویں اورگیارہویں تارخ کوروزوں کااہتمام کیاجاتااوردسویں محرم یعنی عاشورہ کےدن اہل خانہ اوراپنے متعلقین پروسعت اورفراخدلی کےساتھ خرچ کیاجاتاجوایک پسندیدہ عمل ہے، لیکن اسکے برعکس ہوتایہ ہے کہ رنج وغم کااظہار کیاجاتاہے،ماتمی مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں،سینہ کوبی اورنوحہ خوانی ہوتی ہےاور کالالباس پہن کر جلوس نکالاجاتاہے اور یہ سب کچھ اسلئے کیاجاتاہے کہ دس محرم الحرام کو حضرت سیدنا حسینؓ کی شہادت کاالمناک واقعہ پیش آیا، اگر شہیدوں کےلئے ماتم کی اجازت ہوتی توپورے سال کے دنوں میں ہماراکوئ بھی دن ماتم سے خالی نہ ہوتا،اللہ کے دین کی حفاظت اوراسکی اشاعت کےلئے جتنی قربانیاں مسلمانوں نےدی ہیں اتنی قربانیاں کسی دوسری قوم نے اپنے دھرم اورمذہب کی حفاظت کےلئے نہیں دیں،اگرتاریخ کامطالعہ کیاجائے توپورے سال میں کوئی مہینہ، کوئی ہفتہ بلکہ کوئی دن ایسانہیں ہوگاجس میں شہادت کاکوئی واقعہ یارنج والم سے بھرپور کوئی سانحہ پیش نہ آیاہو،اب اگرہم ہرایک کاماتم کرنے لگیں توپھرہمارےلئے ماتم کے سواکوئی دوسراکام کرناممکن ہی نہیں ہوگا،اگرماتم کی اجازت ہوتی تو بارہ ربیع الاول کو ضرور ماتم کیاجاتاکیونکہ اس دن سرکاردوعالم ﷺ دنیاسے رخصت ہوئے تھےاورآپ کی رحلت سے بڑاصدمہ امت کےلئے اورکوئی نہیں ہوسکتا،یہ دن توواقعی مدینہ منورہ میں رنج والم کادن تھا،صحابہ کرامؓ فرماتےہیں کہ ہمیں اس دن ہرچیز تاریک نظر آتی تھی،حضرت عمرؓ جیسا جریاوربے باک انسان بھی اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھاتھا،حضرت عمرؓ کی شہادت، حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت،حضرت علی المرتضیٰؓ کی شہادت،بلکہ اس سے قبل سیدالشہداء حضرت امیرحمزہؓ کی شہادت، غزوہ موتہ کے شہداء کاواقعہ،بیرمعونہ کاواقعہ،غزوة الرجیع کاواقعہ، یہ تمام کے تمام واقعات جورسول اکرم ﷺکےلئے بھی دردوغم کاباعث بنےتھے،انکو کیونکر بھلادیاجائے؟ان سب کی شہادتوں پربھی ماتم ہوناچاہیے تھا،لیکن اسلام ماتم کرنے کی تعلیم ہرگزنہیں دیتابلکہ وہ تودین ومذہب کےلئے جان ومال قربان کرنےکی تعلیم دیتاہے،ہمارے ان بزرگوں نےدین حق کےلئے جانیں دیں اورہم دین کےلئے کیاقربانی پیش کررہےہیں یہ سوچنے اورغورکرنے کی بات ہے،حضرت حسینؓ تواپنی شہادت پرخوش تھے،اللہ تعالی خوش تھااوراسکے رسول بھی خوش تھے،لیکن آج ہم انکی شہادت پرخوش نہیں،اسلئے ہم نے نوحہ اورماتم کرناشروع کردیا،انکے کردار اورکارناموں کاتوکبھی ذکرنہیں کیااورکبھی اسکواپنانے کی کوشش کی،بس صرف زبانی احتجاج اورجلوس نکالنا شروع کردیا، اس دین اورمذہب کاہرگز یہ مزاج نہیں کہ شہیدوں کادن منایاجائے کیونکہ ان لاکھوں شہیدوں کادن کون مناسکتاہے؟پھرتوآدمی کوکھانے پینے کاوقت بھی نہیں مل سکتا،خلاصہ یہ ہے کہ آج جولوگ حضرت حسینؓ کی شہادت پرنوحہ وماتم کررہےہیں دراصل یہی لوگ قتل حسینؓ اور شہادت حسین کے اصل ذمہ دار ہیں،
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دسویں محرم اوریوم عاشورہ کی فضیلت واہمیت حضرت سیدناحسینؓ کی شہادت کی وجہ سے نہیں ہے،بلکہ اسکی فضیلت بہت پہلے یعنی اسلام کے آمد سے بھی پہلے سے ہے،حدیث میں ہے کہ حضرت موسیٰؑ اورانکی قوم بنی اسرائیل کو اسی دن اللہ تعالی نے فرعونی لشکر سے نجات دلائی، جسکی وجہ سے موسیٰؑ نے بطور شکرانہ روزہ رکھا اورانہی کی اتباع میں خود رسول اکرم ﷺ نے بھی روزہ رکھااورامت کو بھی حکم دیاکہ اس دن روزہ رکھو،عاشورہ کاروزہ فرض اورواجب نہیں بلکہ مستحب ہے،عاشورہ کےدن اپنے اہل وعیال پروسعت اورفراخدلی کےساتھ خرچ کرنابھی ایک پسندیدہ عمل ہے،ایک حدیث میں ہے کہ”جوکوئی عاشورہ کے دن اپنے اہل خانہ پر وسعت اورفراخدلی کے ساتھ خرچ کرےگا تواللہ تعالی اس پرپورے سال وسعت فراخی فرمائیں گے”(طبرانی)

برائے رابطہ 8801929100
ای میل [email protected]

Comments are closed.