مسلمانوں کی طرح دلت اپنے قائدین کو گالیاں نہیں دیتے!

اتواریہ: شکیل رشید
کیا یہ ضروری ہے کہ کسی سے ’وفاداری‘ کا ثبوت پیش کرنے کےلیے کسی اور کو ’گالیاں‘ دی جائیں؟
یہ سوال مولانا سید ارشد مدنی کی آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کے بعد سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے کچھ لوگوں کی طرف سے اُٹھنے والے شور شرابے کے حوالے سے ہے۔ اگریہ رد عمل صرف شور شرابے کی حد تک رہتا تب بھی کوئی حرج نہیں تھا کہ یہ ملک بھی اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے او رمذہب اسلام بھی۔ لیکن معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب لوگ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب گالم گلوچ کی آزادی سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ اس ملک میں بھی اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مغلظات بکنا غیر قانونی ہے اور مذہب اسلام تو اسے گناہ قرار دیتا ہی ہے۔
مولانا سید ارشد مدنی جب سے موہن بھاگوت سے مل کر آئے ہیں تب سے کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ جس طرح سے مولانا سید سلمان حسینی ندوی اور شری شری روی شنکر کے درمیان ملاقات کی ’مذمت‘ کی گئی تھی، اس ملاقات کی بھی مذمت کی جائے ۔
جو افراد کہہ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اخلاقیات کی الف ، با سے بھی واقف نہیں ہیں۔ مجھے اس کالم میںان پر کوئی بات نہیں کرنی ہے اور اس پر بھی قطعی بات نہیں کرنی ہے کہ مولانا سلمان ندوی کی ڈبل شری سے ملاقات کیوں مناسب نہیں تھی او رمولانا سید ارشد مدنی کی ملاقات کیوں مناسب ہے، مجھے صرف یہ سوال کرنا ہے کہ کیا مسلمان آج کے حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھیں گے؟ کیا قرآن پاک نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی جو تلقین کی ہے اور بصور ت دیگر ہوا اکھڑنے کا جو انتباہ دیا ہے، اس کی مسلمانوں کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کیا اتحادواتفاق مسلمانوں کےلیے بے معنیٰ چیزیں ہیں؟ کیا کسی ٹرین، بس یا کسی بازار میں جب کسی مسلمان کو ہجومی تشدد کا شکار بنایاجاتا ہے تو کیااس سے یہ سوال پوچھ کر مارا پیٹا یا چھوڑا جاتا ہے کہ تم ڈبل شری گروہ کے ہو یا مولانا سید ارشد مدنی کی جماعت کے؟ کیا جب کوئی مسلمان تین طلاق دے کر جیل بھیج دیاجاتا ہے تو جج اسے اس لیے معاف کردیتا ہے کہ وہ مذکورہ دو گروہ میں سے کسی ایک گروہ کا حامی ہے؟ مذکورہ سوالوں کے دو جواب ہیں ۔ مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کو ناپسند کرتے ہیں، انہیں انتشار اچھا لگتا ہے۔ جب یہ کھلی ہوئی ’نافرمانی‘ کی جائے گی تو اللہ کے انتباہ کے مطابق ’ہوا‘ اکھڑے گی ہی۔ اور دوسرا جواب یہ کہ مسلمانوں کو مسلمان ہونے کے ’جرم‘ میں پریشان کیاجاتا ہے، وہ چاہے جس گروہ ، گروپ کے ہوں انہیں بخشا نہیں جاتا ۔ لہذا کیوں نہ مسلمان وہی کریں جو اللہ چاہتا ہے او رجس کی تعلیم اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے دی ہے، یہ کہ متحد ہوجائیں۔ متحد بھی یوں ہی نہیں کچھ اس طرح کہ جو دشمنی پر تلے ہیں ان کی ہوا اکھڑ جائے۔ اتحاد کا ایک بہت ہی مثبت نتیجہ برآمدہوگا کہ قوم کے مخلص قائدین مخالفین اور ان کی ، جو مسلمانوں کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں، آنکھوں میں بے خوفی سے آنکھیں ڈال کر کہہ سکیں گے کہ مسلمان تو امن چاہتے ہیں لیکن امن چاہنے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے دین، اپنے مذہب اور اپنی شناخت کو یا اسلامی مراکز کو تجنے کو تیار ہیں۔ پوری قوم جب قائد کے پیچھے کھڑی ہوگی تب مولانا سلمان ندوی بھی بات کریں گے تو یہی کریں گے کہ ’بابری مسجد کا سودا نہیں ہوسکتا‘ ۔ اور مولانا سید ارشد مدنی بھی بھاگوت سے ملیں گے (جیسا کہ وہ ملے) تو یہی کہیں گے کہ قوم کے مفادات عزیز ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم مسلمان لڑرہے ہیں۔ ہم نے دلتوں سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ دلت ہم سے بھی زیادہ برہمنوں اور اعلیٰ ذات کے ستائے ہوئے ہیں پر آج وہ چاہے رام داس اُٹھائولے کی صورت میں ہو یا پرکاش امبیڈکر کی صورت میں یا پھر مایاوتی کی صورت میں بی جے پی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں او راپنی بات منوا رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ دلت قوم ان کے پیچھے کھڑی ہوئی ہے اور اگر آپسی اختلافات ہیں بھی تو ان کے سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔نہ کہ انہیں اچھالا جاتا ہے۔ ہم مسلمانوں کی طرح دلت اپنے لیڈروں کو نہ گالیاں دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی نیت پر شک کرتے ہیں۔ مسلمان اب تو سدھر جائیں۔
Comments are closed.