کشمیر: میرے پیرہن کے ٹکڑوں کا بنا ہے شامیانہ

 

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043

نہ آئیں اہل خرد وادی جنوں کی طرف
یہاں گزر نہیں دامن بچانے والوں کا
وادی کشمیر کی سبزہ سے لہو میں ٹپکتی صداوں کے درمیان خاص طور پر جب سروں سے اڑتے دوپٹوں کی پکاریں کانوں میں پڑتی ہیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے گرم سلاخیں کانوں میں ڈال دی ہیں، آر ایس ایس کے غنڈوں نے نہتے اور مجبور صنف نازک کشمیریوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے، کہتے ہیں کہ سول ڈریسز میں وہ گھروں کے اندر، بالاخانوں میں اور آرام گاہوں میں بے دریغ گھسے جا رہے ہیں، بنت حوا کو اغوا کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، وہ آواز لگا رہی ہیں مگر کوئی سنتا نہیں! کوئی توجہ نہیں دیتا، لہذا ان کا زخم ناسور ہوتا جاتا ہے، زخم کی تہیں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں، درد ہی دوا اور دوا ہی درد بن جانے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے، ایسا لگتا ہے کہ بس کوئی شعلہ پھٹنے کو ہے، کوئی چنگاری پورے جوش و خروش کے ساتھ فضا میں بلند ہونے کو بیتاب ہے، اور اس آگ میں گھی کا کام ہندوستانی حکومت کا رویہ کر رہا ہے، دنیا کی تعلیمی و تربیتی اکیڈمیوں سے پوچھیے! وہ بتائیں گے کہ سختی اگر حد سے زائد ہوجائے تو انسان کے دل کو چیر دیتی ہے، اس کا سینہ انتقام کے طوفان سے بھر جاتا ہے، پھر وہ سیلاب بلا خیز بن کر بہتا ہے، وہ خود بسمل ہو کر ہر ایک کو قربان کردینے کے درپے ہوتا ہے، وہ خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا لے جاتا ہے، وہ گرجتا ہی نہیں؛ بلکہ برستا بھی ہے، وہ بادل کا ٹکڑا ٹوٹ کر آشیانے پر گرتا بھی ہے، اور سب کچھ ملیامیٹ کر دیتا ہے۔
کلیجہ تھام لو، روداد غم ہم کو سنانے دو
تمہیں دکھا ہوا دل ہم دکھاتے ہیں دکھانے دو
کہتے ہیں "کسی کو اتنا بھی مت ڈراو کہ اس کا ڈر ہی ختم ہوجائے”، اگر ایسا ہوا تو وہ دنیا کا سب سے خطرناک شخص ہوتا ہے، اگر یہی کام پوری قوم کے ساتھ کیا جائے، تو وہ پوری قوم انقلاب انگیز طور پر ابھرتی ہے، آسمان نئے نئے مناظر دکھاتے ہیں، حریم ظلمت کے سارے پردے چاک کردیے جاتے ہیں، زمین پچھاڑے کھاتی ہے، اور کلی کلی چٹک کر گلوں کی چھاتی ہلادیتی ہے، کشمیر کے متعلق صاف اندازہ ہوتا ہے؛ کہ کوئی منظر انقلاب عام ہونے کو ہے، اور یہ کسی عالمی طاقتوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ (ہمیں یہ کہنے اور ماننے میں کوئی دشواری نہیں) جو کچھ امیدیں ہیں، انہیں سے ہیں، ان کے علاوہ عالمی طاقتوں کو چھوڑیے ہندوستانی عوام بھی بہت حد تک قابل اطمینان نہیں؛ مسلمانوں کا رویہ بے حد افسوسناک ہے، وہ سب ناداں سجدے میں گر گئے ہیں، ان کی کیفیت کو کلیم عاجز صاحب کا یہ شعر خوب بیان کرتا ہے:
مزا یہ ہے لیے بھی جا رہے ہیں جانب مقتل
تسلی بھی دیے جاتے ہیں، سمجھائے بھی جاتے ہیں
استاذ گرامی حضرت مولانا عمر عابدین صاحب کا یہ اقتباس دل کو چھو لیتا ہے، آنکھوں سے خون کے آنسو ٹپکتے ہیں اور دل سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے؛ کہ ہم کس صدی میں اور کن لوگوں کے درمیان جی رہے ہیں، اور اسلام کے ماننے اور مسلمان ہونے کا دم بھر رہے ہیں، مولانا کہتے ہیں: "یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا_____ کسی سربراہ و قائد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ وقت اور حالات کے مطابق ترجیحات کا تعین کرے؛ جب وادی کشمیر خاک و خون سے لالہ زار ہو، تو تحفظ ماحولیات کےلیے تخم ریزی و شجر کاری کی جائے۔ جب ہجومی قتل سے بے گناہ دم توڑ رہے ہوں؛ تو بھائی چارہ کی دہائی دی جائے۔ تو سمجھ لیجیے کہ یہ قیادت برائے منصب ہے نہ کہ برائے مقصد!!”، اگرچہ مولانا کے بیان اور انداز بیان سے بھی اختلاف کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن قابل غور امر ضرور ہے، سوچیے اور سوچیے! اور عامر عثمانی صاحب کا یہ شعر بھی پڑھتے جایے:
میری تازہ لاش پہ عامر دنیا نے جب شور مچایا
وہ اک سمت اشارہ کر کے خود بھی چیخے قاتل قاتل

07/09/2019

Comments are closed.