بڑے بڑے فیصلوں سے صاف ظاہر ہے امت شاہ کی طاقت

سواتی چترویدی
ترجمہ: نازش ہما قاسمی
ایئر انڈیا کی فروختگی کے فیصلے سے لے کر آرٹیکل ۳۷۰ ختم کرنے اور عارف محمد خان کو کیرل کا گورنر بنانے تک وزیر داخلہ امت شاہ ہی ہیں جو مودی 2 کے مقاصد کو عملی جامہ پہنارہے ہیں۔ ۵۴ سالہ امت شاہ کے پاس وہ ’وزن‘ اور طاقت نظر آتی ہے جو ان کے پیش رو راج ناتھ سنگھ نے شاید سپنے میں بھی نہیں پائی تھی۔ وہ پہلی بار گاندھی نگر سے لوک سبھا کے رکن بنے ہیں۔ جو بی جے پی کے مؤسس لال کرشن اڈوانی (امت شاہ ان کے الیکشن مینیجر ہوا کرتے تھے) کا حلقہ انتخاب رہا ہے؛ لیکن پہلی بار لوک سبھا کا ممبر بننا صرف ایک تکنیکی پہلو ہے؛ کیوں کہ وہ برسراقتدار پارٹی کا ایسا چہرہ نظر آتے ہیں جو بالکل بے رحم ہے اور کسی بھی سمجھوتے کے موڈ میں قطعی نہیں ہے۔
بی جے پی کے ایک وزیر نے آدھے من سے ہنستے ہوئے اور پوری طرح نام نہ شائع کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’میں نے کسی بھی پہلی بار رکن پارلیمنٹ اور وزیر بنے شخص کو اس طرح کی خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا۔ شاہ جی نے اس حکومت کو نئے سرے سے متعارف کرادیا ہے اور اب یہ حقیقت میں مودی اور شاہ کی سرکار ہے‘‘۔
اہم پہلو یہ ہے کہ مودی اور شاہ کے ایک کے بعد ایک ہونے والے کام کسی بھی طرح کے تناؤ یا انا کے ٹکراؤ کے بنا ہوتے رہتے ہیں یہ اسی طریقے سے چل رہا ہے جس طریقے سے امت شاہ کے بی جے پی صدر رہتے وقت چل رہا تھا۔ بی جے پی نے اٹل بہاری واجپئی کے دور وزارت میں لال کرشن اڈوانی کے نائب وزیراعظم رہتے ہوئے بھی جوڑی کو کام کرتے دیکھا ہے؛ لیکن ان کا دور اتنا ہموار نہیں تھا۔ مودی کے لیے امت شاہ اتنے زیادہ ضروری ہیں کہ وہ آج بھی پارٹی صدر ہیں،(جب کہ بی جے پی کا اصول ہے ایک شخص ایک ہی عہدہ) لیکن کارگزار صدر کے طور پر جے پی نڈا صرف شاہ کے ڈیلیوری ایجنٹ کی طرح کام کرتے ہیں، پارٹی میں اب بھی سبھی فیصلے امت شاہ ہی لے رہے ہیں اور تین ریاستوں میں ہونے جارہے انتخابات کی سبھی تیاریاں ان کی اور ان کے چہیتے جنرل سکریٹری بھوپیندر یادو کی نگرانی میں ہورہی ہیں ۔ مودی کے لیے شاہ کے اہم ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ مودی نے شاہ سے کرشنا مینن مارگ پر موجود بنگلے میں آکر رہنے کے لیے کہا، جہاں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی رہتے تھے۔ گزشتہ منگل کو امیت شاہ اس بنگلے میں پہنچ گئے۔
آرٹیکل ۳۷۰ کو ہٹایاجانا اور اس کے بعدکشمیرمیں لاک ڈاؤن سمیت جو کچھ بھی ہوا، امیت شاہ کا ہی پروجیکٹ ہے، مرکزی وزیر داخلہ ہر دن قومی سلامتی (این ایس اے) کے مشیر اجیت ڈوبھال کے ساتھ ساتھ انٹلی جینس بیورو سربراہ اروند کمار اور ریسرچ اینڈ اینولسس ونگ (را) سربراہ سامنت گوئل سے کشمیر پر بریفنگ کے لیے دو دو بار ملاقات کیا کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی مدد ملتی ہے کہ شاہ نے مودی کے ساتھ مل کر دو داخلی اور خارجی سلامتی کے سربراہ منتخب کیے۔
ہوسکتا ہے امت شاہ کا موازنہ کیاجانا ناراض کرتا ہو، لیکن وزیر داخلہ کے ایک افسر جو پی چدمبرم کے وزیر داخلہ کے دور میں جوائنٹ سکریٹری ہوا کرتے تھے کا کہنا ہے کہ فیصلہ کرنے کو لے کر دونوں کی سوچ قطعی ایک جیسی ہے اس نوکر شاہ کے مطابق ’’دونوں ہی اقتدار کو لے کر پرجوش ہیں، لیکن فیصلے جلد لیا کرتے ہیں، اور ان کی ذمہ داری بھی لیا کرتے ہیں، ان کے برعکس راج ناتھ سنگھ محتاط رویہ اپناتے تھے اور ہمیشہ نتائج کے بارے میں فکر مندر رہتے تھے۔
آئی این ایکس میڈیا کیس میں چدمبرم کی گرفتاری پرزور دینے کا فیصلہ بھی مودی اور شاہ نے ہی مل کر لیا تھا، اس جوڑی کے پاس کئی پیغامات تھے، جنہیں واضح کیاجانا ضروری تھا۔ نمبر ایک: اپوزیشن کو پیغام دینا ہے کہ اب سے سیاسی لیڈران سے منسلک مبینہ کرپشن کے معاملے تیزی سے آگے بڑھائے جائیں گے۔ نمبر دو: یہ ان فرضی مڈبھیڑوں اور جبراً وصولی سے منسلک مختلف کیسوں کی قیمت چکانے کا وقت ہے۔ جس میں اس وقت امت شاہ کو ملزم بنایاگیا تھا، جب پی چدمبرم وزیرداخلہ تھے۔ نمبرتین: اپوزیشن کو پیغام دیاجارہا ہے کہ ہمارے حساب سے چلیے ورنہ (تفتیشی) ایجنسیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ راج ٹھاکرے سے حال ہی میں ای ڈی کے ذریعے پوچھ تاچھ بھی یہی پیغام دیتی ہے۔ منسے سربراہ راج ٹھاکرے نے لوک سبھا انتخاب سے قبل پاور پوائنٹ پریزیٹنشنوں کے ذریعے انوکھی مہم چلا کر مودی کا مذاق اڑایا تھا۔ ہونے والے مہاراشٹر اسمبلی چناؤ میں دیکھنا ہوگا کہ بی جے پی کے خلاف پرچار کرنے میں راج ٹھاکرے کے رویے اور قابلیت پر ای ڈی کی پوچھ تاچھ کا کوئی اثر ہوا ہے یا نہیں؟
مودی کے قابل اعتماد رفیق ارون جیٹلی کی طویل علالت اور وفات کی وجہ سے بھی امت شاہ کے کردار میں توسیع ہوئی۔ اور عارف محمد خان کو کیرل کا گورنر بناکر امت شاہ نے بی جے پی لیڈران کے لیے اپنا پیغام دہرایا ہے، وہ بند دروازے کے پیچھے ہونے والی میٹنگوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’’بی جے پی کا سنہرا دور تب آئے گا جب بی جے پی مغربی بنگال اور کیرل میں حکومت سازی کرنے میں کامیاب ہوگی‘‘ ۔ بی جے پی لیڈروں کو لگ رہا تھا کہ طلاق ثلاثہ بل پر مرکزی سرکار کی حمایت کرنے والے عارف محمد خان کو راجیہ سبھا کا رکن بنایا جائےگا؛ لیکن انہیں کیرل کا گورنر بناکر انعام دیاگیا۔ امت شاہ نے خود عارف محمد خان کو فون کرکے اس تقرری کی اطلاع دی۔امت شاہ نے حال ہی میں کرناٹک کے ان وزیروں سے بھی بات کی تھی، جو وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کے ذریعے مختص وزارت کو لے کر سرکش رویہ دکھا رہے تھے اور انہیں انتباہ دیا کہ ساتھ چلیں، ورنہ پھر الیکشن کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں، اس کے علاوہ امت شاہ نے ہی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کو بھی اشارہ کیا کہ وہ معیشت کے ’ڈوبنے ‘ کو لے کر پیدا ہوئے ڈر کو ختم کرنے کے لیے ہر دن پریس بریفنگ کریں، حالانکہ جی ڈی پی کی شرح نمو پانچ فیصد کی سطح پر آگئی ہے اور آٹوسیکٹر سمیت سبھی سیکٹروں سے بری خبروں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ لہذا پیغامات کو تبدیل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ امت شاہ کی انوکھی قابلیت یہی لگتی ہے کہ وہ اپنی صورت حال کو لے کر (امت شاہ کو مودی کا معاون اعلیٰ کہاجاتا ہے) بالکل مطمئن رہتے ہوئے بڑے بڑے فیصلے لے لیا کرتے ہیں۔ غلط فہمی اور عدم تحفظ کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ ایسی فائدہ مند صورت حال ہے جو صرف آگے کی جانب بڑھے گی۔
(سواتی چترویدی رائٹر اور صحافی ہیں؛ یہ انڈین ایکسپریس، اور دی ہندوستان ٹائمز میں کام کرچکی ہیں)

Comments are closed.