کیا این آر سی کی فائنل لسٹ رد کردی جائے گی؟ غیر ملکی مسئلے کی جنگ لڑنے والے آسام کے رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل کی امید اور اندیشے!

شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )
بی جے پی این آرسی کی حتمی فہرست سے ناخوش ہے !
اس این آرسی فہرست سے جس نے آسام میں ۱۹ لاکھ افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۰۰۰۰
بی جے پی یہی تو چاہتی تھی کہ آسام میں رہنے والے ’ غیر ملکیوں کی شناخت ہوجائے تاکہ ان کے بوجھ سے آسام کی سرزمین کو خالی کیا جاسکے ‘ اور اب جبکہ ’غیر ملکیوں‘ کی شناخت ہوچکی ہے بی جے پی کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے ۔۔۔ اس نے این آرسی کی حتمی فہرست پر جہاں سوال کھڑے کرنے شروع کئے ہیں وہیں اس کے لیڈران کی طرف سے نئے سرے سے این آرسی کی جانچ شروع کرانے اور اس جانچ میں اس کے مطابق جو ’گڑبڑیاں‘ ہوئی ہیں انہیں دور کرانے کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔۔۔ اور شاید این آرسی کی یہ جو فہرست جاری ہوئی ہے اب تک اسے آسام سرکار اٹھاکر کوڑے دان میں ڈال بھی چکی ہوتی پر چونکہ یہ سارا معاملہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے عین مطابق ہوا ہے اس لئے فی الحال اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، لیکن ! جی ہاں لیکن کل کو عین ممکن ہے کہ یہ جو فائنل فہرست تیار ہوئی ہے مسترد کردی جائے اور آسام میں شہریت کا مسئلہ پھر وہیں آکھڑا ہو جائے جہاں سے یہ شروع ہوا تھا۔۔۔ اور ایک بار پھرسے آسام کی مسلم آبادی نشانے پر لے لی جائے ، یہ سارا معاملہ ہی آسام کی مسلم آبادی کو ’غیر ملکی‘ یا باالفاظ دیگر’ بنگلہ دیشی‘ قرار دینے کا ہے ۔۔۔ اور بی جے پی کو اسی لئے سانپ سونگھ گیا ہے کہ این آرسی کی جو فائنل فہرست جاری ہوئی ہے اس میں ’ غیر ملکیوں‘ اور’ بنگلہ دیشیوں‘ کے طور پر آسامی مسلمانوں کی تعداد دوسروں کے مقابلے کم ، بلکہ بہت کم ہے ۔
آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ( اے آئی یو ڈی ایف) کے سربراہ اور آسام جمعیۃ علماء کے صدر ،رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کو اندیشہ ہے کہ اگر یہ فہرست جو جاری کی گئی ہے ، حتمی اور فائنل فہرست کے طور پر قبول نہ کی گئی تو یہ جو ’غیر ملکی کامسئلہ‘ ہے حل نہیں ہوگا بلکہ اسے بنیاد بناکر شر پسند اور فرقہ پرست سیاست کے توے پر اپنی روٹیاں سینکیں گے اور اقلیتیں بالخصوص مسلم اقلیت کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ مولانا بدرالدین اجمل نے این آرسی کی فائنل فہرست کا خیر مقدم کیا ہے ۔ این آرسی کے موضوع پر خٔصوصی بات چیت کے دوران انہوں نے کہا :’’ہم این آرسی کی فہرست کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ اس فہرست کے اجراء سے ایک ایسا مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے جو گذشتہ پچاس برسوں سے آسام کی ترقی کے مانع تھا ، آسان کے غیر ملکیوں کا مسئلہ ۔ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل پارہا تھا، اس کی وجہ سے آسام میں ہر طرح کی ترقی ٹھپ ہوکر رہ گئی تھی جبکہ ملک کے وہ دیگر صوبے جو آسام ہی کے ساتھ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے تھے ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہیں ، ہمارے یہاں بس یہی ’ بنگلہ دیشی‘ معاملہ گرم تھا ، لیکن اب جبکہ این آرسی کی حتمی فہرست جاری کردی گئی ہے تو امید ہیکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا ۔ ‘‘
پر کیا یہ امید درست ہے ؟
یوں تو یہ این آرسی کی فہرست گذشتہ سات برسو ںکی محنت کے بعد تیار کی گئی ہے ۔ اس کی تیاری پر سولہ سوکروڑ روپئے کا خرچ آیا ہے اور یہ معمولی رقم نہیں ہے ۔ ابھی سال گذشتہ جب این آرسی کی پہلی فہرست جاری کی گئی تھی تب اس میں سے 40 لاکھ افراد کے نام غائب تھے ۔ یہ تعداد بہت بڑی ہے اسی لئے ایک ہنگامہ شروع ہوگیا تھا۔ این آرسی کی تیاری میں جوکوتاہیاں اور لاپروائیاں برتی گئی تھیں میڈیا نے انہیں اجاگر بھی کیا ۔ کہیں ناموں کے املے میں غلطی، کہیں ایک گھرانہ کے چند افراد کے نام این آرسی میں شامل تو اسی گھرانہ کے دوسرے افراد کے نام فہرست سے غائب ! کہیں مذکر کی مونث تو کہیں مونث کی مذکر میں تبدیلی ! غرضیکہ بہت ساری لاپروائیاں سامنے آئیں ۔ سپریم کورٹ کی ایما پر حتمی فہرست کی تیاری کا کام شروع کیاگیا اور اس کے اجراء کی تاریخ31 اگست طے کردی گئی، حالانکہ آسام کی بی جے پی سرکار اور بی جے پی کے لیڈران نے اس تاریخ کو آگے بڑھانے کی درخواستیں کیں لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس گگوئی نے ان کی درخواستوں کو نہیں مانا ، طئے شدہ تاریخ کو حتمی فہرست جاری گئی اور اس کے جاری ہوتے ہی بی جے پی پر جیسے بجلی گرپڑی ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہیکہ چاہے بی جے پی رہی ہو چاہے کانگریس ، سب ہی نے آسام میں ’غیر ملکیوں‘ یا ’ بنگلہ دیشیوں‘ کی تعداد کے بارے میں ’ گمراہ کن ’ دعوے کئے تھے ۔
مولانا بدرالدین اجمل بتاتے ہیں :’’لوگوں نے غیر ملکیوں یا بنگلہ دیشیوں کی تعداد بتانے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا۔ سابق وزیراعلیٰ سائیکیا نے کہا تھا کہ آسام میں 30 لاکھ غیر ملکی ہیں ، سنہا صاحب نے کہا کہ بنگلہ دیش سے لوگ سرحد پار کرکے آسام میں گھس پیٹھ کررہے ہیں ، کانگریس کے سابق مرکزی وزیر داخلہ جیسوال نے پارلیمنٹ کے اندر بنگلہ دیشیوں کی تعداد 50 لاکھ بتائی اور دوسرے دن اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ میں نے یہ بیان اخبارات میں تعداد دیکھ کر کردیا تھا ‘!اس طرح کے جو بیانات آتے رہے ہیں اور غیر ملکیوں کی تعداد کے سلسلے میں جو مبالغہ آرائی کی گئی ہے ان ہی کو بنیاد بناکر بی جے پی اور آر ایس ایس نے آسام میں بنگلہ دیشیوں کے مسئلے کو انتہائی گرم کیا ۔ یاد رہے کہ موہنتا کی وزارت میں دوبار غیر ملکیوں کی شناخت کی گئی ، یہ تعداد 11 ہزار تھی ! ہمارا یہ کہنا ہے کہ اگر یہ تعداد 40 لاکھ یا 60 لاکھ ہے اور روزانہ ہی سرحد پار کرکے 6 لاکھ بنگلہ دیشی آسام میں داخل ہورہے ہیں، تو یہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی گئے کہاں !؟ جواب تھا کہ یہ سب ملک بھر میں پھیل گئے ہیں ، پر مسئلہ آسام کا تھا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اسی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ آسام میں 40 لاکھ بنگلہ دیشی ہیں ، انہیں بھگاکر دکھائیں گے ۔ اب بی جے پی اور شاہ سے سوال ہے کہ یہ جو اتنی بڑی تعداد کا انہوں نے دعویٰ کیا تھا، اس دعوے کا کیا ہوا؟ دونوں ہی انتخابات میں بی جے پی اور شاہ نے ’ بنگلہ دیشی مسئلے‘ کو بنیاد بناکر ووٹ لوٹے۔۔۔ اب یہ جو این آرسی کی فائنل فہرست کئی سالوں کی شدید محبت کے بعد آئی ہے ، جسے ترتیب دینے کےلئے 57 ہزار ورکروں نے دن رات ایک کیا ہے ، اسے حتمی مان لیا جانا چاہئے تاکہ آسام کا ایک نازک اور حساس مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے ۔‘‘
این آرسی کے لئے آسام کی موجودہ سرکار نے پندرہ دستاویزات طلب کی تھیں ، کئی کئی بار ان دستاویزات کی توثیق کی گئی ، ہزاروں افراد بار بار لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے ، سوپچاس لوگوں نے مایوس ہوکر خود کو پھانسی لگالی، بار بار لوگوں کی مختلف دفتروں میں پیشیاں ہوئیں ، اس کے بعد این آرسی کی فائنل فہرست آئی جس میں ’غیر ملکی ‘ کے طور پر 19 لاکھ افراد کی شناخت کی گئی ۔۔۔ مگر اس میں بہت ساری کوتاہیاں اور لاپروائیاں درآئی ہیں ۔ پہلے ہی کی طرح لوگوں کے ناموں کے املے کی غلطیاں ، مذکر اور مونث کی غلطیاں ، ایک ہی طر ح کے دستاویزات جمع کرانے والے گھرانوں میں سے والد کا نام تو بیٹے کا غائب، ماں کا نام شامل تو بیٹی کا غائب ۔۔۔ اور بی جے پی ہے کہ الگ منہ پھلائے ہوئے ہے ! مولانا بدرالدین اجمل نے بتایا :’’ یہ بی جے پی والے اس لئے خوش نہیں ہیں کہ این آرسی کی تیاری کا کام ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوا ، آسام سرکار یہ کام بی جے پی کی وزارت سے کرانا چاہتی تھی مگر سپریم کورٹ نے اس کی اجاز ت نہیں دی، بی جے پی کی آسام سرکار نے این آر سی کی حتمی فہرست کے اجراء کو موخر کرانے کی بہت کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس گگوئی نومبر میں مستعفی ہورہے ہیں ، وہ آسام کے ہی ہیں ، انہیں سارے حالات سے آگاہی ہے لہٰذا وہ بی جے پی کی چلنے نہیں دے رہے ہیں ، ان کی ہدایت پر ہی یہ حتمی فہرست جاری کی گئی ہے ، ظاہر ہے کہ یہ کام بی جے پی کی مرضی کے مطابق نہیں ہے ۔ یہ بنگلہ دیشیوں کی تعداد کے تعلق سے مبالغہ آمیز باتیں اپنی نوعیت میں سیاسی ہیں۔ ایک صاحب نے تو کہہ دیا کہ این آرسی سے ایک کروڑ مسلمانوں کو نکال باہر کرنا چاہئے تھا لیکن بقول غالب
دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا
سب کی امیدوں پر پانی پھرگیا اور صرف اس لئے کہ این آرسی کا معاملہ سپریم کورٹ کے ذمہ تھا۔‘‘
چونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے اس لئے یہ ’ اندیشہ‘ ہے کہ آگے ، بالخصوص چیف جسٹس ، جسٹس گگوئی کے مستعفی ہونے کے بعد ’گڑبڑی‘ کی جاسکتی ہے ۔ مولانا بدرالدین اجمل کا کہنا ہے :’’نائب وزیراعلیٰ ہیمنتا وشوشورا کہہ رہے ہیں کہ ’ہمارے لوگوں کا نام رہ گیا ‘۔ یہ کبھی کانگریس میں تھے اور کانگریس کی حکومت میں اسی معاملے کے وزیر تھے ، اس وقت مسلمان ان کے اپنے تھے کیونکہ مسلمانوں کے ووٹوں پر جیت کر آتے تھے اور آج یہ بی جے پی کے اسٹیج سے بول رہے ہیں ۔ وہ جواب دیں کہ جنہوں نے انہیں دس فیصد بھی ووٹ نہیں دیا وہ ’ ہمارے‘ اور ہم جنہوں نے انہیں چاربار جتایا’ پرائے‘ کیسے ہوگئے ‘! آج ’مسلمان‘ غیر اور ’ ہندوبنگالی‘ بھائی بن گئے ۔ ہم تو ابتدا ہی سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ کسی کو بھی مذہب کی بنیاد پر غیر ملکی قرار نہ دیا جائے ، یہ جو آسام معاہدہ ہوا ہے ، اس کے بعد جو بھی آسام میں آیا ، چاہے وہ مسلمان ہویا ہندو ، وہ غیر ملکی ہے ۔ ہماری اور جمیعۃ علماء کی یہی پالیسی ہے ۔ پھر چاہے آنے والا مذکورہ معاہدہ کے ایک دن بعد ہی کیوں نہ آیا ہو ۔ لیکن آپ اگر بدیسی کے نام پر سودیسی کو ہراساں کریں گے ، دھرم کے نام پر ہراساں کریں گے تو ہم اسے برداشت نہیں کریں گے ۔ پہلے بھی ہمارے لئے سپریم کورٹ تھی اور اب بھی سپریم کورٹ پر اعتماد ہے ۔ ‘‘
اب بی جے پی کی آسام سرکار غیر مطمئن ہے ۔ این آرسی کا معاملہ سپریم کورٹ لے جانے والا ابھیجیت شرما ٹی وی پر آکر ساری تنظیموں اور لوگوں سے معافیاں مانگتے پھر رہا کہ’ ہم جو چاہتے تھے کروڑوں روپئے خرچ کرکے وہ نہیں کرسکے ‘۔ مولانا بدرالدین اجمل بتاتے ہیں :’’ یہ چاہتے تھے کہ ایک کروڑ مسلمانوں کو بنگلہ دیشی بناکر آسام سے باہر کھدیڑ دیں ، ان کے حقوق چھین لیں ، ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیں اور اُنہیں بے گھر کرکے حراستی کیمپوں میں بھیج دیں ۔ اس کی ساری تیاریاں مکمل تھیں تین تین سوبیگھہ زمینوں پر حراستی کیمپ بنادیئے گئے تھے ، پر اللہ رب العزت کی مہربانی جو تعداد آئی وہ 19 لاکھ ہے ، اس میں 11 لاکھ ہندو بنگالی ہیں ، مسلمان صرف 6 لاکھ ہیں ، بہاری اور نیپالی دو لاکھ اور باقی کی تعداد 4 لاکھ ہے ۔ دو تین لاکھ وہ ہیں جنہوں نے اپلائی ہی نہیں کیا تھا۔ 6 لاکھ مسلمانوں میں سے بھی مکمل چھان بین کے بعد بس ڈیڑھ دولاکھ مسلمانوں کا ہی مسئلہ رہے گا ، ہم ان کے ہی نہیں ان سارے 19 لاکھ آسامیوں کے لئے ، کیا ہندو کیا مسلمان لڑیں گے جن کی شہریت پر سوالیہ نشان لگادیا گیا ہے ۔۔۔ اب بی جے پی پریشان ہے تو صرف اس لئے کہ اب سب کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ بی جے پی نے یہ سارا معاملہ بنگلہ دیشیوں کو نہیں مسلمانوں کو باہر نکالنے کے لئے گرم کیا تھا۔ ہم قانونی لڑائی لڑیں گے ، ہم سپریم کورٹ سے درخواست کریں گے جب تک غیر ملکیوں کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہ ہوجائے گگوئی صاحب کو چیف جسٹس کے طور پر بحال رکھا جائے ، فائنل رپورٹ ان کی نگرانی ہی میں شائع کی جائے تاکہ آسام کی بی جے پی سرکار کو من مانی کا کوئی موقعہ نہ مل سکے ۔ اللہ کے آگے سرجھکانے کی ضرورت ہے کیونکہ شرپسند اور فرقہ پرست اس این آرسی کی فہرست کو رد کرانے کے لئے سرگرم ہیں ، بی جے پی پورے زور سے لگی ہوئی ہے ، اس لئے میری یہ اپیل ہے کہ اس فائنل فہرست کو سب ہی مان لیں تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے ۔‘‘
سوال یہ ہیکہ کیا بی جے پی ، سنگھ پریوار اور شرپسند وفرقہ پرست جو ’ بنگلہ دیشی‘ مسئلے کو گرم کرکے سیاسی فائدہ اٹھارہے ہیں مسئلے کے حل کے لئے مولانا بدرالدین اجمل کی درخواست قبول کریں گے ؟؟

Comments are closed.