محبت کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں!!

 

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043

محبت کو مذہب، دھرم، اور ذات، پات میں قید کردینا اس سے دشمنی کی بات ہے، ویسے بھی دنیا جانتی ہے کہ محبت کے ساتھ ہمیشہ ظلم و جور ہوا، اسے خوب ستایا گیا، رشتوں اور برادریوں میں تقسیم کیا گیا، اس پر مصیبتیں ٹوٹیں، آسمان نے قہر برسائے، زمین نے بھینچا، اور ہر محبت کرنے والے کی داستان خون آلود رہی، مصائب کی بجلیوں نے انہیں آگھیرا؛ دراصل محبت کا یہی خاصہ ہے، یہی نتیجہ ہے، مصیبت اس کی تقدیر اور بلائیں اس کی غذا ہیں، اس کا لباس، اوڑھنا، بچھونا ہیں، اسی آنگن اور گھر میں اس کا بسیرا ہے۔ آج کا دور بھی عجیب ہے یہ محبتوں کے سینے کو چھلنی کر رہے ہیں، اسے زخم دے رہے ہیں، اس کے جسم کو تار تار کر رہے ہیں، اب تو دشمنی ہی لوگوں کی شکم سیری کا ذریعہ بن گئی ہے، بات بات پر خون بہا دینا اور پاگل کتے کی طرح کسی پر بھی ٹوٹ پڑنا، اور باولوں کی طرح خون چوس کر فخریہ سر اٹھانا_____ یہ کسی مظلوم کا نہیں، بلکہ ازل سے قائم اس محبت کا جنازہ ہے، جو دھوم دھام سے نکالا جارہا ہے۔ خیر یہ بھی کوئی حیران کن بات نہیں، بلکہ عین محبت ہی کا تقاضا ہے، جو جتنا محبوب ہوتا ہے وہ اتنا ہی معتوب ہوتا ہے، محب کے لئے لعن و طعن آکسیجن اور فضا کے مثل ہے، یہ بے لاگ ہے، دو ٹوک ہے، اس کا کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ سب کا ہے اور سب اس کے ہیں، اس موضوع پر جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم کا اقتباس قابل مطالعہ ہے، جو ادب کی چاشنی اور بلا کی وارفتگی رکھتا ہے، جو ادب اور محبت کے پروانوں کے لئے انعام ہے، آپ رقمطراز ہیں:
"_____ محبت کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں، اس کا کوئی کنبہ نہیں، کوئی قبیلہ نہیں، کوئی خاندان نہیں۔ یہ تنہا پیدا ہوئی اور تنہا ہی رہتی ہے۔ اس کا کوئی سرپرست نہیں، کوئی نگہبان نہیں، یہ خود ہی اپنی سرپرست، خود ہی اپنی نگہبان ہے ____ خدا کا بھی کوئی کنبہ، قبیلہ، خاندان نہیں۔ خدا بھی تنہا ہے۔ خدا کا ایک نام محبت بھی ہے۔ محبت بھی تنہا، خدا بھی تنہا۔ محبت کو بھی لوگ ستاتے ہیں، خدا کو ستانے والے ہی دنیا میں زیادہ ہوئے، خدا سے بغاوت کرنے والے بھی اور اطاعت کرنے والے بھی۔ بغاوت کرنے والے کھل کر تکلیف پہونچاتے ہیں، اطاعت کرنے والے چھپ کر۔ مگر ستانے والے دونوں ہیں۔ محبت کو بھی ستانے والے سب ہیں، اس کے دشمن بھی۔ روپ والے بھی، بہروپ والے بھی۔ مجنوں کو شہر والے بھی ستاتے تھے، لیلیٰ کے گھر والے اور خود لیلیٰ بھی۔ ورنہ پھر معشوق کا نام ستمگر کیوں پڑتا؟ شہر کے لڑکے آوازہ کستے، تالیاں بجاتے، ذلیل کرتے، پتھر مارتے، اور مجنوں پتھر کھا کھا کر جھومتا اور رقص کرتا۔
عجیب بات ہے کہ پتھر ہی محبت کو زخم بھی دیتا ہے اور مرہم بھی لگاتا ہے۔ محبت کو پھول دو تو صحت مند محبت بیمار ہوجاتی ہے۔ پتھر لگاو تو بیمار محبت صحت مند اور توانا ہوجاتی ہے۔ محبت کرنے والے خوش نام نہیں رہے۔ ہردلعزیز نہیں رہے۔ رسوا رہے، بدنام رہے، خانہ برباد رہے، محبت کو فرش، مخمل نہیں ملا، پھولوں کی سیج نہیں ملی، موسم کی لوریاں نہیں ملیں، ساون کی پھواریں نہیں ملیں، اس کی قسمت میں بسنت نہیں، ہولی نہیں، دیوالی نہیں، چراغاں نہیں۔ اس کے باغ میں بہاریں بہت کم۔ خزاں بہت زیادہ، پت جھڑ ہی پت جھڑ، سکھاڑ ہی سکھاڑ۔ پھولوں کی ہنسی اس کی تقدیر میں بہت کم ہے۔ کلیوں کی مسکراہٹ، نسیم سحری کی سرسراہٹ بہت کم۔ اس کے دریا میں موجیں بہت اٹھتی ہیں۔ اس کے سمندر میں سکون نہیں۔ طوفان بہت آتے ہیں۔ بھنور ہی بھنور، گرداب ہی گرداب۔ اس کے ساحل ناہموار، اس کے راستے دشوار گزار۔ اس کا زیور زنجیریں، اس کا منصب رسن و دار۔ اس کی معصومیت پر سب ڈھلتے ہیں، مگر اس کی اٹھان سے سب ڈرتے ہیں، اس کے شباب سے جلتے ہیں، میرے اشاروں پر خوب غور کیجیے اور پھر تجربوں کی کسوٹی پر کسئیے۔” (ابھی سن لو مجھ سے! ۲۳۳)

08/09/2019

Comments are closed.