منزلوں کی بات چھوڑو کس نے پائی منزلیں!

محمد صابر حسین ندوی

منزلوں کی بات چھوڑو کس نے پائی منزلیں
ایک سفر اچھا لگا، ایک ہمسفر اچھا لگا
اگر انسان کامیابی کا مدار تلاشے، عروج کا پیمانہ بنا لے، ترقی کا نقطہ ٹھہرا لے، کوئی انتہا کوئی کنارہ قرار دے لے تو یقین جانئے وہ کنارہ اس سے قبل کے قریب ہو ایک دوسرا کنارہ تیار ہوجائے گا، دن اور رات اپنا اپنا سرا رکھتے ہیں؛ لیکن ہر سرا دوسرے سے جدا ہے، سمندر کے ساحل کی کوئی حد نہیں ہوتی، ندی اور نہر کی کوئی وسعت نہیں ہوتی، آبشاروں کے گرنے کا کوئی خاص مقام نہیں ہوتا؛ بلکہ ان میں سے ہر ایک کی منزل بدلتی رہتی ہے، انسان اگر آسمان کی طرف دیکھے تو ہر حد نگاہ اس کیلئے ایک کونہ ہے، اختتام سماں کا تصور ہے، لیکن ہر بینا اس سے واقف ہے کہ یہ بینائی کا دھوکہ ہے، ظاہر اس کے خلاف ہے، آسمان کا ہر کنارہ اس کی ابتدا ہے، اسی طرح دنیا میں ہر کامیابی انسان کی دوسری کامیابی کی طرف ایک زینہ ہے، وہ سیڑھی کی مانند ہے، جس سے بڑھتا ہوا موت کی گود تک پہونچتا ہے، قبر کی راہ ہموار کرتا ہے، اپنے رب حقیقی سے ملنے کا پتہ پاتا ہے، یہی کامیابی ہے، فوز و فلاح ہے، اسی کی درگاہ میں اس کا ٹھکانہ اصلی ہے، منزل مقصود ہے، سفر کی انتہا یے، اس سے قبل تو صرف ہیولہ ہے، خاکہ ہے، ایک اسٹرکچر ہے جس میں وقت وقت پر مختلف تصویریں بٹھاتا جاتا ہے۔
دنیا میں منزل کی خواہش بے کار اور بے سود ہے، کس منزل کو تلاشیں گے؟ ہر منزل ایک نئے سفر کا اشارہ کرے گی، بچپن میں یہی منزل تھی کہ عمدہ کھلونے مل جائیں، مستی ہوجائے، اچھے نمبرات آجائیں، دوستوں میں بات بن جائے، رشتے داروں میں حیثیت ہوجائے، پھر نوکری بن جائے، پیسے بنانے کا ہنر سیکھ جائیں، دولت جمع کر کے معاشرے کا موقر و معزز ممبر ہوجائے، شادی ہوجائے، بچے ہوجائیں اور پھر بچوں کی کامیابی___ ان کی سرگرمیاں اور رہنمائیاں کی جائیں، اس کی ناموری میں اپنی شہرت اور تسکین حاصل کی جائے، ان کے سیٹل ہونے کا بندوبست ہو جائے، اور جب وہ اپنے اپنے مستقر کو پہونچ جائیں، زندگی میں مقام حاصل کر لیں تو پھر اپنی صحت کو ترسیں، بیماریوں سے بچیں، اور کرتے کرتے ایک دن اسپتال کے دروازے پر قدم رکھیں اس کے وینٹیلیٹر پر سوئیں، آلہ تنفس سے کام لیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی نیرنگیوں کو خیرباد کہہ دیں___ کہاں ہے منزل؟ کونسا مقام استقرا و قرار ہے؟ دنیا میں منزل پالینا سوائے گمان یا خوش فہمی کے کچھ نہیں، یہ خود کی دلداری اور نفس کو بہلانے کے مترادف ہے، زندگی تو بس اک دھن ہے، ایک نغمہ ہے اور ساز ہے جو اخیر سانس پر ٹوٹ جائے گا اور منزل آخرت کی منزل ہے، قرار جنت کا قرار ہے، سکون فردوس بریں کا سکون ہے۔
سنتے ہیں وفا کے رستے میں منزل نہ مسافر خانہ ہے؟
کیا جانے کہاں تک پہونچے ہیں کیا جانے کہاں تک جانا ہے

09/09/2019

Comments are closed.