جو فتنے اٹھے انہیں شیخ و برہمن سے اٹھے!

 

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043

خون کے پیاسے دل میں ڈھنڈک سوز محبت سے ہوگی
دنیا پانی مانگ رہی ہے آگ چلے بھڑکانے ہم
شہید، شہادت، قتل و قتال، جہد و جہاد اسلام اور ایمان کا اہم ترین جزء ہے، قرآن و سنت سے اس کی فضیلت مواترا ثابت ہے، فسق، فساد اور ظلم و ظالم اور حکمرانوں کی بے اعتدالی کے خلاف سر اٹھانے اور اپنی گردن تشت میں پیش کر دینا بھی زمانے کی رسم رہی ہے، لیکن دنیا نے اگرچہ وقتی طور پر ان سپہ گروں کی تعریفیں کی ہو اور تلوار کی چمک کے آگے مظلوم کا خون پھیکا لگا ہو مگر تاریخ کے ہر ورق پر اسی مظلوم کا تذکرہ خیر چھڑتا ہے، جو سربکف ہو کر میدان جنگ کی زینت بن گیا تھا، قصیدے پڑھے جاتے ہیں، مرثیے لکھے جاتے ہیں، اور وہ سب کچھ کہا جاتا ہے جس سے سیف و سنان کی قوت محروم رہتی ہے، یہی غیبی نظام ہے، حق و باطل کی پہچان ہے اور انسانوں کے لئے عبرت ہے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی اس تناظر میں وہ شہادت ہے جس پر خلق خدا کا ہر ذرہ گواہ ہے، ان کے ذکر سے ہر ایک زبان تر اور دل نرم ہے، تو وہیں یزید کی یزدیت نے اگرچہ حکومت کا علم بلند کر لیا تھا، اور سرخ سروں کی لاشوں پر اپنا مسند قائم کرلیا تھا؛ لیکن آج تک اور قیامت تک اس کی سرزنش میں روئے زمین مامور رہے گی، دلوں اس کے خلاف نفرت پنپتی رہے گی، خون آخر خون ہوتا ہے اگر وہ ناحق بہا دیا جائے، تو روئے زمین کی تپش بڑھ جاتی ہے، اور وہ گرمی اس پر جینے والوں کے سینوں تک پہونچتی ہے، جو اسے بے چین کرتی ہے، اور اس کے حق میں کھڑے ہونے پر مجبور بھی کردیتی ہے۔
یہ بحث کا موضوع نہیں ہوتا، مسالک بنانے اور اپنی فکری کاوشوں کا زور دکھانے اور خیالی نقاط کا انوکھا پن ظاہر کرنے اور فلسفہ جھاڑنے کا موضوع نہیں ہوتا، لیکن عجب حال ہے کہ علم کے چوغے میں ملبوس اور دینداری کے ٹھیکیدار اس مقام کو پہونچ گئے ہیں؛ کہ وہ خون شہادت پر بھی چھینٹا کشی کرنا چاہتے ہیں، اپنی فکری لا ابالی پن کیلئے تختہ مشق بنانا چاہتے ہیں، لوگوں کے درمیان نئی نئی بحثیں تیار کر کے اپنا تسلط اور اپنا اجارہ جتانا چاہتے ہیں، تف ہے!!! ان شیخوں پر اور دیر و حرم کے پاسبانوں پر جن کے سامنے ایک مظلوم بھی موضوع بحث بن گیا ہے، یہ البیلی باتیں سمجھ نہیں آتیں، میدان کارزار کا وہ پیاسا، اپنی معصومیت اور بے گناہی کے باجود تیر و نشتر کھاتا ہوا وہ نیک دل، ریگستان کی پیاس اپنے خون سے بجھاتا ہوا وہ بہادر اور تلواروں کے سایہ میں اپنے ساتھ ساتھ اپنا خون جگر بھی قربان کرتا ہوا جنت میں نوجوانوں کا سردار _____ آخر کس جرم کی سزا پاتا ہے کہ اسے ہر یوم شہادت پر موضوع گفتگو بنا لیا جاتا ہے، وہ مجرم عرش کا مجرم ہے، اور وہ شہید عرش بریں کے رکھوالے کا مہمان ہے تو پھر یہ اہل فرش کیوں بے چین رہتے ہیں؟ اور دوسروں کی بے چینی کا باعث بنتے ہیں؟ خدارا رک جائیے! زبان و قلم کو لگام لگائیے! رہنے دیجئے! قیامت کے دن یقینا آپ سے ماضی کا سوال نہ ہوگا بلکہ آپ کو آپ کی استطاعت کے بقدر کا سوال کیا جائے گا، پھر کیوں داستان لامتناہی چھیڑا جائے؟ اور کیوں عقلی گھوڑوں پر سوار ہو کر زعم و خدشات پالے جائیں ؟؟؟
رہے گا رنگ جما کر لہو شہیدوں کا
یہ داغ وہ نہیں جو ان کے پیرہن سے اٹھے
کلیجہ خون کیا جن کی انجمن کے لئے
کلیجہ تھام کر ہم ان کی انجمن سے اٹھے
10/09/2019

Comments are closed.