عشق کے کاروباری کا خسارہ!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
بازار یان عشق کی ہے طرفہ رسم و راہ
وابستہ آہ سود ہے، ان کا زیان پر
حقیقت میں خسارہ ہی ایک دل شکستہ کی اصل کمائی ہے، جب انسان کے اندر عشق کا حقیقی لاو پھٹتا ہے تو وہ بے قراری میں ہی سکون اور بے چینی میں اطمینان پاتا ہے، صحابہ کرام رضی الله عنہم کا حال یہ تھا؛ کہ وہ آپ ﷺ کی محبت میں دل ہار بیٹھے تھے، وہ عشق ہی تھا جو ان کو کسی پل اپنے محبوب کی نافرمانی کی اجازت نہیں دیتا تھا، یہ روحانی اور مادی ہر دو عنصر میں یکساں کام کرتا ہے، اپنے محبوب ﷺ کی خوشنودی اور اطاعت کی خاطر انہوں نے جنگل، ریگستان، پہاڑ اور سمندر عبور کر ڈالے تھے، بات دراصل یہی ہے کہ دل کے زیاں میں سوز و ساز ہے، نغمہ ہے، چہچہاہٹ ہے، بارش کی پھوار ہے، زمین کی سوندی خوشبو اور بادل کا سایہ ہے، انسان اکثر کامیابی فتح میں تلاش کرتا ہے، اپنی انا کی تسکین میں ڈھونڈتا ہے، حالانکہ اسے شکستگی میں اور ٹوٹے ہوئے دل میں اور خود کی معرفت میں تلاش کرنا چاہیے، وہ انجانی چیزوں کو تلاش کرنے کے چکر میں جتنا اوپر جانا چاہتا ہے، اسی قدر ٹھوکریں کھا کر نیچے ہی گر رہا ہے:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
افسوس!!! اب ایسا کون کرتا ہے؟ اس زیاں کی لذت کا دیوانہ کون ہے؟ نہ جانے کیوں لوگ نہیں جانتے کہ عشق میں یہی دیوانگی کبھی عبادت بن کر تو کبھی دعا کے ذریعے، آنسوؤں، کراہوں اور آہوں کے راستے اور ہر ایک راستے ایک خاص کشش، حسن اور شغف رکھتا ہے، یہ چاشنی ہے، امرت ہے، جن کو یہ امرت، یہ چاشنی مل گئی وہ اسے بھلا چھوڑنے والے ہیں!!!!
اب اور کسی کو کیا دیکھیں نظروں میں کوئی جچتا ہی نہیں
آنکھوں پہ تیری صدقہ کر کے جنگل میں ہرن کو چھوڑ دیا
سچی بات یہ ہے کہ عشق کے کاروباری کا منافع خسارہ ہے، لوگ ایک کے بدلے منافع کے ڈیڑھ چاہتے ہیں؛ لیکن ایسے کاروباری بھی ہوتے ہیں، جو ایک کا ڈیڑھ کیا، اپنا ایک بھی نقصان کر کے شادیانے بجاتے ہیں۔ ذرا سنئے! حضرت جنید بغدادی نے ایک دکان کپڑوں کی کھولی، تجارت کرتے رہے، ایک دن ایک خریدار آیا، اور بغل سے ایک تھان نکال کر دکھایا؛ کہ اس میں یہ عیب ہے، میں لے گیا تھا، گھر جا کر دیکھا اور پایا کہ یہ کٹا ہوا ہے، حضرت جنید بغدادی بہت خوش ہوئے، تھان واپس لے لیا اور وصول کی ہوئی پوری قیمت خریدار کو شکرئے کے ساتھ واپس کر دی۔ ادھر خریدار گیا اور حضرت جنید بغدادی نے ملازمین کو بلا کر کہا: تم لوگ دکان کا سامان آپس میں بانٹ لو اور دکان ختم کر دو۔ ملازمین حیران ہوگئے۔ حضرت جنید نے فرمایا: میں نے منافع کمانے کیلئے دکان نہیں کھولی تھی، حضور ﷺ نے فرمایا: کہ جو تاجر کوئی عیب دار مال خریدار سے واپس لے کر اس سے لی ہوئی قیمت اسے پورا ادا کردے تو اس کا شمار صالحین میں ہوگا، میں نے اسی حدیث شریف کا فرمایا ہوا ثواب لینے کیلئے یہ دکان کی تھی، مجھے وہ تو اب مل گیا۔ اب دکان دای کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔ حضرت آتش فرماتے ہیں:
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
اور حضرت راسخ عظیم آبادی فرماتے ہیں:
نازاں ہوں اپنے قلب شکستہ کی شان پر
ہے عرش کو حسد اسی ٹوٹے مکان پر
اور اقبال کہتے ہیں:
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
حضرت عیسی علیہ السلام نے خدا سے ایک دن پوچھا:اے اللہ میں تجھے دنیا میں کہاں ڈھونڈھوں ؟ خدا نے فرمایا:مجھے ٹوٹے ہوئے دلوں میں ڈھونڈا کر میں وہیں رہتا ہوں۔
ہم تو مٹی سے اگائیں گے محبت کے گلاب
تم اگر ڈھونڈنے جاتے ہو ستارے جاو
(دیکھیے: ابھی سن لو مجھ سے! :۱۸۱)
11/09/2019
Comments are closed.