کچھ یادیں کچھ باتیں… آہ استاد محترم مفتی شوکت علی قاسمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ رحمۃ واسعہ

 

مولانا حفیظ الرحمان قاسمی الہ آبادی صدر جمعیت علماء الہ آباد

مادر علمی مدرسہ انوارالعلوم مئوآئمہ ۔الہ آباد اپنے ایک عظیم محسن سے ہمیشہ ہمیش کے لئے محروم ہوگیا۔
۹ محرم الحرام کو ۳ بجے کے قریب موبائل کی گھنٹی بجی دیکھا تو قاری رحمت اللہ صاحب عرفانی دامت برکاتھم کا فون آرھا تھا ۔فون اٹھایا تو قاری صاحب نے سوالاََکھا کہ آپ کو مفتی شوکت صاحب کے بارے میں کچھ اطلاع ملی میں نے عرض کیاکہ نھیں تو انھوں نے کھا کہ ابھی میرے پاس اطلاع آئی ہیکہ مفتی صاحب اب اس دنیا میں نھیں رہے ذرا اس بات کی تحقیق کرو میں نے مفتی حبیب الرحمن صاحب مد ظلہ کو فون لگایا اور اس خبر کی تصدیق کی تو مفتی صاحب نے کھا کہ خبر صحیح ہے میں مفتی شوکت صاحب کے گھر پر ہی ہوں ۔یہ تصدیق کیا تھی بلکہ ایک طرح سے ایسا لگ رھا تھا جیسے میرا وجود ہی سن ھو گیا ہو میرے اوپر یک دم سے کچھ دیر تک سکتے کے عالم طاری ہوگیا پہر اسکے بعد اطراف واکناف کے علماء کا فون آیا اور ایسا لگ رھا تھا جیسے ہر آدمی اس خبر سے مطمئن نہ ہو بلکہ یہ سننا چاھ رھا ہو کہ یہ خبر غلط ہے بھر حال موت کی حقیقت سے کس کو انکار ہے جسکا وقت پورا ہوچکا ہو اسے تو بھر حال اس دنیا سے جانا ہی ہے ۔
مفتی شوکت علی قاسمی ؒ،، کی پوری زندگی علم دین کی اشاعت مدرسہ کی ترقی کے لئے کوشش اور عوام کو دین کی دعوت دینے میں گزری میں پورے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کھ رھاہوں کہ ہمارے اس گئے گزرے وقت میں مفتی صاحب مدارس میں کام کرنے والوں کے لئے ایک بھترین رہنما تھے کیسے بھی حالات ہوں لوگ کس قدر ناراض ہوں اور عوام کتنے ہی بدگمانیوں میں مبتلا ہو لیکن مفتی صاحب مدرسے کی خاطر خود ساری تکلیفیں برداشت کرتے تھے اور مدرسے کے فائدے کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملاقات کرتےاور انھیں ایسی رغبت دلاتے کہ وہ تمام مخالفتیں رفع ہوجاتی ،اور لوگوں کا غصہ کافور ہوجاتا ،مفتی صاحب کی ایک خاص صفت سادگی تھی ،اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود مفتی صاحب سے ہر بچہ ،بوڑھا بلا کسی تردد کے ملتا تھا اور مفتی صاحب سب سے رواداری برتتے تھے، اس قدر عمدہ اخلاق پر فائز تھے کہ دور دراز کے علاقوں کے لوگ بھی آپ سے دلی محبت رکھتے تھے، اس کاثبوت نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں عوام الناس وخواص کی شرکت دیتی ہے، انتقال کے محض پانچ گھنٹہ بعد عشاء کی نماز کے بعد ۹ بجے جنازہ کی نماز ادا کی گئی اس کے باوجود بھی دور دراز کے علاقوں اور دیہات سے ہزاروں کا جم غفیر شریک ہوا، مجمع اس قدر کثیر تھا کہ مئو آئمہ قصبہ کی اس قدر کشادہ عیدگاہ بھی پر ہوگئی اور عیدگاہ کے باہر بھی لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی، الہ آباد پرتاپگڑھ اوراطراف کے اکثر مدارس کے ذمہ دار کبار علماء نے شرکت کیا، یہ مفتی صاحب سے دلی محبت وعقیدت کانتیجہ تھا، اگر نماز جنازہ دن میں اداکی جاتی تو ازدحام کس قدر ہوتااس بات کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں، کیونکہ رات میں دیہات کے لوگوں آنے میں تکلیف ہوتی ہے اور سواری کابھی انتظام نہیں ہوتا اور معذور بھی رات میں آنے سے قاصر ہوتے ہیں، اگر دن میں نمازجنازہ ادا کی جاتی تومیں سمجھتاہوں اس سے چارگنا زیادہ مجمع ہوتا، یہ مفتی صاحب کااخلاص تھا خود کو چھوٹا ہی سمجھتے تھے دوسروں کوعزت دیتے تھے، اس لئے وہ عوام وعلماء میں نھایت ہی محبوب تھے،
برے سے برے حالات میں پہاڑکی طرح جمے رہتے تھے ۔سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے تعلیم وتعلم کے لئے ا اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا ایسی پیرانہ سالی میں جبکہ آدمی کے قوی جواب دے جاتے ہیں مفتی صاحب مدرسے کے لئے دور دراز کا سفر کرتے تھے اور لوگوں سے ملاقات کر مدرسے کو فائدہ پھنچاتے تھے ۔اور علمی شان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپکو کافیہ جیسی کتاب مکمل یاد تھی عمر کے اواخر ایام میں نظر کافی کمزور ہوگئی تھی باوجود اسکے کافیہ اور شرح مأۃ جیسی کتاب کو زبانی پڑھایا کرتے تھے ۔ناچیز کو یاد ہے کہ کافیہ کے درس کے دوران کچھ ساتھیوں نے بطور اْزمانے کے کچھ عبارت کتاب سے غلط پڑھ دی تو مفتی صاحب نے فورا گرفت فرمائی اور عبارت کو صحيح پڑھ کر بتایا،
مفتی شوکت علی قاسمی رحمہ اللہ کی فراغت 1968 عیسوی میں ہوئی، اس وقت کا عالم یہ تھا، الہ آباد پرتاپگڑھ سلطانپور اور دوردراز علاقوں میں آپ کے علاوہ کوئی مفتی نہیں تھا،اطراف واکناف میں کوئی شرعی مسٔلہ پیش آئے تو لوگ مفتی صاحب سے رجوع کرتے تھے اور شافی جواب پاتے تھے ۔اورکوئی پنچایت گاؤں کی ہو اور اگر کوئی دینی مسٔلہ درپیش ہو تو مفتی صاحب خود پہنچ کر رھنمائی کرتے ۔اپنے سے بڑوں کی اس قدر عزت کرتے تھے کہ بعضے عوام تو اسی بات سے نالاں نظر آتے تھے کہ مفتی صاحب باوجودیکہ علم ومرتبہ میں ان سے بڑے ہیں اور انھیں بھائی کہ کر مخا طب کرتے تھے ،اور کبار علماء سے اس طرح کا تعلق تھا اور اتناادب تھا کہ اگر انکے اساتذہ و مرشدین میں سے کسی کا ذکر ہوتا تو ایسے انداز میں ہوجاتے ایسا لگتا تھاوہ مفتی صاحب کے سامنے موجود ہوں ،اللہ اکبر انتھائی عالی صفات کے مالک تھے ۔اور انھیں اس قحط الرجال کے دور میں طلباءکے اندر ہمیشہ جستجو رہتی تھی وہ فن خطابت میں قاری طیب صاحب ؒجیسی خصوصیت پیدا کریں ۔اکثر طلبا کو وہ قاری صاحب کے واقعات سناتےاور انھیں رغبت دلاتے تھے اس کے باوجود اگر کوئی طالب علم کوئی نامناسب بات کھتا اور بے ادبی کرتاتھا تو شیخ زکریا ؒکا یہ مقولہ پڑھتے :
ان نینون کا یہی بسیکھ
وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ ؛
اور اپنی کڑھن کا اظھار کرتے ،۔
کون کون سی خوبیوں کا تذکرہ کروں ؟
مفتی صاحب ایک چلتی پھرتی انجمن تھے ،جو ایک وقت میں امت کی امامت کے منصب کو اپنی ذات عالی سے رونق بخشتے تووہیں علوم نبوت کو تشنگان عوم میں تقسیم کرکے مورث اعلی فداہ ابی وامی کی وراثت کا حق ادا کرنے میں کوئی کمی نہ کرتے ،اور پھر انھیں اوقات میں سے وقت نکال کر پہلےتو مولانا پرتابگڈھی کی خانقاہ میں تزکیہ نفس کے لئے حاضر ہوتے رہے پہر حضرت پرتابگڈہی کے وصال کے بعد شیخ طریقت مولانا قمر الزماں الہ آبادی کی مجلس میں پابندی سے حاضری دیتے اور لوگوں کو بھی دعوت دیتے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کے لئے حضرت سے تعلق قائم کریں میری معلومات میں ایسے کئی لوگ قصبہ واطراف کے ہیں جنھوں نے مفتی صاحب کے محنت وفکر کی وجہ سے اپنے کو حضرت کے حوالے کیا اور بامراد ہوئے۔مفتی صاحب درحقیقت اس حدیث شریف کے زندہ وجاوید نمونہ تھے جس میں کھا گیا ہیکہ جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے ،بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نھیں
الغرض ۔کیا کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں سیکڑوں واقعات مفتی صاحب کے متعلق نظروں کے سامنے ہیں بھر حال اس مستعار زندگی کا جتنا وقت بھی مفتی صاحب کو ملا انھوں نے علوم نبوت کو عالم میں تقسیم کیا اور ,,انما اناقاسم واللہ یعطی ،،کی وراثت کا حق ادا کرنے میں کوئی کمی نھیں کی اور خدمت دین کے ساتھ خدمت خلق کا جذبہ بھی مفتی صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا وہ خدمت خلق کو بھی خدمت دین سمجھ کر کرتے تھے اور خدمت کرتے کرتے وہ اس دار فانی سے دار بقاءکی طرف کوچ کرگئے
اللہ رب العزت والجلال سے دعا ہے کہ اللہ تعالی مفتی صاحب کی بال بال کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے ،اور جنت الفردوس میں اعلی مقام سے نوازے ،درجات بلند کرے ، اور ہمیں انکا نعم البدل عطا کرے ،تمام متعلقین وپسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطافرمائے ،بالخصوص مولوی فضل الرحمن حفظہ اللہ کو انکا امین وجانشین بنائے ،اور مفتی صاحب کو اللہ رب العزت اپنی جوار رحمت میں خاص مقام سے نوازے
آمین یارب العالمین

Comments are closed.