سفر زندگی کیلئے دو توشے!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
انسان کی زندگی کا سفر خواہ مسافت قلیل ہو یا کثیر ہو، کسی قدر بھی معمولی نہیں، بلوغ کے بعد سے ہی انسان سفر حیات پر نکل پڑتا ہے، اور پھر سفر پر نکلتے ہی زمانے کی نگاہ میں آجاتا ہے، وہ کبھی کبھی بھیڑ میں ایسا پھنس جاتا ہے؛ کہ اس کی سانسیں محال ہو جاتی ہیں، بے چین و مضطرب ہو کر وہ کسی پل گر پیٹھ سیدھی کرنا چاہے، اور وہ سوچے کہ پل دو پل کو راحت نصیب ہو جائے؛ تو یہ بھی اس کیلئے ممکن نہیں ہوتا، ایسے میں وہ قناعت پسندی کے حجاب میں اپنی بے بسی کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، اور توشہ حیات کی کمی کی شکایت کرتا ہوا زندگی میں پچھڑ جاتا ہے، حالانکہ انسان کا مقدر، اس کی اٹھان اور رمز و ایماء ایسے ہیں جو انسان کے مقدر ساز ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛ لیکن کمر ٹوٹ جانے کی وجہ سے وہ اپنا قلم قلمدان میں رکھ کر لیٹ جاتا ہے اور اپنی موت کا منتظر ہوجاتا ہے:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا
زندگی کے اس سفر میں اگر دو چیزیں شامل ہو جائیں، تو امید ہے کہ انسان اپنی تنگی داماں کی شکایت نہ کرے گا، اور زندگی کی پگڈنڈیوں پر خواہ لہراتا ہوا ہی ہو کیوں نہ ہو؛ لیکن گزر جائے گا، جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم نے اپنی طویل ترین زندگی اور تجربات کی روشنی میں انسان کیلئے دو توشے قرار دئیے ہیں، اگر وہ دو توشے سنبھال لئے جائیں، تو ضرور زندگی کی مشکلات آسان ہو سکتی ہیں، آپ رقمطراز ہیں:
"____ اب انسان سفر کرتا ہے۔ اپنی تقدیر بنانے کیلئے۔ اپنا مقدر حاصل کرنے کیلئے۔ اپنے امکانات پر قابو پانے کیلئے۔ اس سفر کیلئے اسے دو توشے دئے گئے، گلے میں ترازو کے دو پلڑوں کی طرح یہ توشے کی دو گٹھریاں لٹکا دی گئیں _ ایک توشہ عشق۔ دوسرا توشہ عقل اور ان دونوں کا رشتہ فیضان سماوی سے جوڑ دیا۔ عشق اور عقل دراصل دو جدا چیزیں نہیں ہیں، جس طرح زمین سورج ہی کا ایک حصہ ہے، عقل بھی عشق کا ہی ایک جزو ہے۔ زمین سورج سے الگ ہو کر بھی وابستہ اور مربوط ہے، عقل بھی یہ ربط رکھتی ہے۔ تو یہ دونوں توشے کھانا اور پانی تقدیر سازی کے سفر میں انسان کی صحیح توانائی اور فطری صحت مندی قائم رکھتے ہیں، اور انسان اپنی تقدیر بناتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ یہی تقدیر ساز شخصیتیں ہیں جو تخلیق میں قدرت کی ہم رکاب، ہم دوش اور ہم دست رہتی ہیں، انہیں کے متعلق فرمایا گیا ہے؛ کہ خدا ان کا ہاتھ بن جاتا ہے، جس سے وہ تھامے۔ پاؤں بن جاتا ہے جس سے وہ چلے۔ آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھے، کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنے”۔ (ابھی سن۔ لو مجھ سے! ۲۸۵)
عقل و عشق کا امتزاج تو وہ امتزاج ہے جو دنیا کو قدموں میں لا کر رکھ دے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج یا تو عقل کا غلبہ ہے یا پھر عشق کی جاذبیت ہے، یوروپی فکر نے عقل کو تھام لیا، جس کے نتیجے میں زندگی آسان گرچہ ہو گئی؛ لیکن وہ لذت اور شوق سے محروم ہو گئے، ان کے پاس سب کچھ ہو کر بھی کچھ نہیں ہے؛ تو وہیں ایک طبقہ نے عشق کو ہی اصل مان لیا اور عقل کو پس پشت ڈال دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زندگی میں تشدد اور تکلف کا بول بالا ہو گیا، جدید تحقیق اور ٹکنالوجی اس عشق کی گلی میں نا محرم قرار پائے، انہوں نے تشدد کو اس حد تک روا رکھا کہ گلاب کا باغ اور پورا چمنستان چھوڑ کر چند کلیوں کو ہی سب کچھ مان لیا، اور وہ بھول گئے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں، جہاں اور بھی ہیں:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ہمت و شجاعت کے ساتھ قدم بڑھانا عشق کے امتحان پاس کرنا عقل کے دریا کو عبور کرنا، ستاروں پر کمندے ڈال کر انہیں اپنا غلام بنانا، اور دل کا میخانہ آباد کر کے ہر کسی کو سیراب کرنا یہی اصل بات ہے، اور پھر اسی کے ساتھ سفر حیات جاری و ساری رکھنا ہی اصل زندگی ہے:
ایک چلو بھی نہ اپنے لیے باقی رکھا
اوروں کو بانٹ دے ساغر و مینا بھر کے
13/09/2019
Comments are closed.