جمعیۃ علما ہند مودی سرکار کے ’دباؤ ‘ میں ۔۔؟

شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )
کسی ہندوستانی شہری نے یہ کب کہا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے؟
ہندوستانی سے میری مراد اس ملک کے تمام ہی لوگ ہیں، بلالحاظ مذہب وملت ، کیا ہندو اور کیا مسلمان۔ ایک سوال اور ہے ، کیا کبھی کسی ہندوستانی نے ’مسئلہ کشمیر‘ پر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے؟ یہاں اگر ’کسی ہندوستانی ‘کی جگہ ’ہندوستانی مسلمان‘ پڑھا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا کیوں کہ اس ملک کا ایک زہریلا طبقہ یہ زہریلا پروپیگنڈہ پھیلانے میں پیش پیش ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت، بلکہ سب کے سب ہی مسلمان، پاکستان کے تئیں اپنے دل میں اپنے اس ملک کے مقابلے کہیں زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اور ’مسئلہ کشمیر‘ پر یہ پاکستان کے ساتھ ہیں۔ سچ یہی ہے کہ اس ملک کے مسلمانو ںنے نہ کبھی کشمیر کو اس ملک کا اٹوٹ انگ سمجھنے میں کسی طرح ہچکچاہٹ محسوس کی اور نہ ہی کبھی کشمیریوں کو غیر سمجھا۔ ڈنکے کی چوٹ پر اس ملک کے مسلمان کہتے آئے ہیں کہ کشمیر بھی ہمارا ہے او رکشمیری بھی ہمارے ہیں۔لہذا سوال یہ ہے کہ آج جمعیۃ علما ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کو منتظمہ کے اجلاس میں یہ قرار داد کیوں پیش کرنی پڑی ہے کہ ’ہماری نظر میں کشمیر اس ملک کا اٹوٹ انگ ہے‘ او ر’پاکستان اور دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں‘؟؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ دیاجاسکتا ہے کہ مولانا اور جمعیۃ مودی سرکار کے دبائو میں آگئی ہے۔ لیکن ’دبائو‘ کی بات اس لیے بہت زیادہ قابل قبول نہیں کہ جو قرار داد منظور کی گئی ہے اس میں حکومت ہند یا بالفاظ دیگرمودی حکومت سے یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ وہ ’’انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے کشمیری عوام کی جان ومال کی حفاظت میں کوئی دریغ نہ کرے اور کشمیریوں کے دل جیت کر حالات کو معمول پر لانے کےلیے دستور کے مطابق عمل کرے‘‘۔ سوال کا ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جو ایک پروپیگنڈہ مشین دن رات، اس ملک کے لوگوں کو مسلمانوں کےخلاف اُکسانے او ربھڑکانے کےلیے ان دنوں سرگرم ہے، اور جو لوگوں کے قلب وذہن کو مسموم کررہی ہے، اس پروپیگنڈہ مشین کے زہر، اس کی نفرت اور اس کی عصبیت و فرقہ پرستی کا رد برادران وطن تک یہ پیغام پہنچا کرکیاجائے کہ اس ملک کا مسلمان نہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیتا ہے او رنہ ہی ’مسئلہ کشمیر‘ میں پاکستانی موقف کا حامی ہے بلکہ ’مسئلہ کشمیر‘ پر وہ اپنے ملک کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ پیغام جانا ضروری ہے کیوں کہ ’مسئلہ کشمیر‘ کے سلسلے میں سارے ملک میں جو زہریلا پروپیگنڈہ شروع ہے وہ سارے مسلمانوں کو ’مشکوک‘ بنارہا ہے۔
لیکن جمعیۃ علما ہند کے اجلاس منتظمہ میں’مسئلہ کشمیر‘ پر جو قرارداد منظور ہوئی اس میں ایک ایسے پہلوکو نظر انداز کردیاگیا ہے جو انتہائی اہم ہے بلکہ ان دنوں ساری دنیا میں جو گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ وہ ’مسئلہ‘ ہے انسانی حقوق کی پامالیوں کا۔ ’مسئلہ کشمیر‘ میں ہندوستانی مسلمان بھی برادران وطن کی طرح کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ مانتا ہے اور پاکستانی حرکتوں کی مذمت بھی کرتا ہے لیکن وہ وہاں جاری انسانی حقوق کی پامالیو ںکے خلاف بھی اس ملک اور دنیا بھر کے حقوق انسانی کے کارکنوں کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ غیر انسانی کرفیو، ظالمانہ قیدوبند، مواصلاتی نظام پر قدغن، احباب ، رشتے دار اور اعزاء کی ملاقاتوں پر پابندی، یہ ایسی حرکتیں ہیں جو ایک جمہوری ملک کو غیر جمہوری ملکوں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے۔ ان دنوں اقوام متحدہ سے لے کر امریکی ایوان تک لوگوں کی زبانوں پر کشمیر میںانسانی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ہمارے ملک کی ساکھ متاثر ہورہی ہے او رپاکستان کو اپنے شرپسندانہ پروپیگنڈے کےلیے مواقع بھی فراہم ہورہے ہیں۔ ابھی امریکہ کے چار بڑے سیاست دانوں نے صدر ٹرمپ سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ مودی سرکا رپر دبائو ڈال کر کشمیر میں مواصلاتی پابندیو ںکو ختم کرائیں۔ جمعیۃ علما ہند کو چاہئے کہ وہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اُٹھائے۔ مولانا محمود مدنی اس تعلق سے بھی ایک قرار داد پیش کریں کیوں کہ اجلاس منتظمہ کی قرارداد میں نہ آرٹیکل ۳۷۰ کا ذکر آیا ہے ، نہ ہی مواصلاتی پابندیوں، پیلٹ گنوں اور دیگر حقوق انسانی کی پامالیوں پر بات کی گئی ہے۔
Comments are closed.