جسے پینا نہیں آتا، اسی کے ہاتھ جام آیا!!

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

زمانے میں تقسیم کی بلا بھی بڑی عجیب ہے، خدا تعالی سے کسی جرم اور ظلم کی امید تو حرام ہے؛ لیکن انسانی نگاہ اور ظاہر پرستی کا کیا کیجیے! اسے تو ہر طرف بادہ خواروں میں خود کی محرومی نظر آتی ہے، نظام میخانہ کا ہر پرزہ اس کی جگہ سے الگ تھلگ اور غیر مناسب نظر آتا ہے، یہ ساقی جو کسی کو محروم کر رہا ہے، کسی کو جام بھر بھر کر پلاتا ہے، کوئی آنکھوں سے بھی پلاتا ہے، کوئی دل کے شعلے جلا کر اور محبت کا رس گھول کر پلاتا ہے، گلاس چھلکتا ہے، جام انڈیلنے کے قریب ہے، پیمانہ کی سکت بھی جواب دینے کو ہے، بوسیدگی اور قدامت نے اسے چور چور کر رکھا ہے؛ لیکن ہائے کمبخت! وہ بادہ خوار کسی سلیقہ کا نہیں، نہ تو جام کی پہچان اور اس کا لطف اور نا ہی اس کی قدر ہے، ہوا کے دوش پر چلتا ہے، اپنا ہی جام بکھیرنے کو تیار ہے، ٹوٹے پیمانوں کو جوڑنے کے بجائے انہیں مسمار کرنے کے درپے ہے، یہ ساقی گری کی کیسی تک بندی ہے، یہ کیسا نظام میخانہ ہے؟ اور ذرا دیکھیے!
اس راندہ درگاہ گو جسے گھونٹ گھونٹ کیلئے ترستا، بلکتا اور تڑپتا چھوڑ دیا گیا ہے، وہ جام تک ہاتھ بڑھاتا ہے؛ لیکن اس کی پہونچ سے قاصر ہے، وہ نگاہوں سے پینا چاہتا ہے تب بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، بے کسی میں اگر کوئی جام آیا تو ناقص ہی آیا، درد کا دریا ایک طرف رکھا ہوا ہے اور اس دریے کا قطرہ بھی جام میں گھولنے کو میسر نہیں، دماغ کی سوتیں خشک ہونے کو ہیں، رگیں پھڑکتی ہیں، دل کی دھک دھک آوازیں لگا رہی ہیں؛ لیکن کیا مجال کہ ساقی کے کانوں پر جوں رینگ جائے؟ وہ تو جام بھر کر بے بودہ ہو بیٹھا ہے، اسے جام کی قدر نہیں معلوم، اسے اس کی خوشبو میں کوئی ہنر اور نشہ نہیں لگتا، وہ کیا سمجھے کہ آخر کسی بادہ خوار کی الجھن کیا چیز ہے، وہ مزہ اور شوق و ذوق کا طوفان کہاں اس کے پاس ہے، وہ اب تک کسی طوفان سے آشنا ہی نہیں ہوا، اسے بھنور میں ہونے اور ڈوب کر پھر نکل کر منزل پالینے کی لذت ہی نہیں معلوم، شاعروں نے اسی لیے تو کہہ دیا؛ کہ اب وہ دور ہے کہ جسے پینا نہیں آتا اسی کے پاس جام ہے، میکدہ ہے، نظام میخانہ ہے، قانون ہے، ذرا کلیم عاجز صاحب کو پڑھیے:
نہ وہ محفل جمی ساقی نہ پھر وہ دور جام آیا
تیرے ہاتھوں میں جب سے میکدہ کا انتظام آیا
الگ بیٹھے ہیں جو آداب مینوشی سے واقف تھے
جسے پینا نہیں آتا اسی کے ہاتھ جام آیا
ایسے محروم کا درد واقعی زمانے کا درد ہوتا ہے، دنیا کے اجالوں میں تاریکی اور فصل بہاراں میں خزاں کا احساس ہوتا ہے، آرزو ٹوٹ کر اور شکستہ ہو کر میخانہ کا وہ مظلوم شمع بنتا ہے، پروانہ بنتا ہے، جگنوؤں کی طرح جلتا ہے، روشنیاں کرتا ہے، لیکن خود کو جلا کر اور اپنے آپ کو فتیلہ بنا کر ____ دوسروں کی محفل میں کوئی کمی نہ ہونے دیں، دنیا کی شگفتگی اور اس کی رعنائی کیلئے دل چیر کر اور اپنا جگر کاٹ کر رکھ دیں، لیکن ہائے کیا کیجیے! وہ محنت کش اور طالب مے ____ تب بھی محروم اور راندہ ہی ٹھہرا، نظام میخانہ کا کوئی حصہ اس کیلئے نہیں، اس حال پر کبھی کبھی رونا آیا اور کبھی ہونٹوں تلے مسکراہٹ تو کبھی مارے حیرت رگوں میں بجلی کوند گئی، حال یہ ہے کہ دیکھنے والوں کو مضحکہ لگتا ہے، وہ دیوانہ سمجھتے ہیں، شادابی میں ریگ کا مقدر رکھنے والا اور امیدوں میں دل پھینکنے والا کبھی کبھی خود پر ہنس بیٹھتا ہے، ساز دل ٹوٹتے ہیں، جھنکتے ہیں اور بجتے ہوئے ارمانوں کی ہلکی سی صدا لئے چیخنے لگتے ہیں، ان کی آوازیں بازگشت کرتی ہیں، کلیم صاحب کی زبانی گویا ہوتے ہیں:
آرزو دامن ہی پھیلاتی رہی
فصل گل آتی رہی جاتی رہی
شمع و پروانہ بلا سے جل بجھے
آپ کی محفل تو فرماتی رہی
شاعروں کی دنیا میں اس چوکھٹے کے اندر ساغر صدیقی مرحوم بھی خوب فٹ بیٹھتے ہیں، جو اپنا نام ساغر رکھنے کے باوجود زندگی بھر مے کو ترستے رہے، نظام میکدہ نے کبھی ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا، وہ دل کا سودا کرنے کو تیار تھے، فقیری اور بے خودی میں سب کچھ بھول جانے اور جام سبو سے لت پت ہونے کو بے قرار تھے، ان کی زندگی کا ہر صفحہ اسی کے اردگرد مبنی یے، وہ بھٹکا ہوا شاعر اور زمانے کی نظر میں گمشدہ اور مدہوش سخنور بھی کیا خوب کہہ گیا ہے، پڑھیے! لیکن اسے پڑھ کر صرف ایک شخص اور ان کے احوال پر قیاس نہ کیجیے؛ بلکہ اسے وسعت دیجیے! اس کی لاج رکھیے اور سنیے:
ساقیا تیرے بادہ خانہ میں
نام ساغر ہے مے کو تر سے

14/09/2019

Comments are closed.