کشمیر : ہم میں کوئی کیوں نہیں ہے اروندھتی رائے، پنکج مشرا، رام چندر گوہا اور جولیوایف ریبیریو کی طرح حق کو حق اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے والا

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ہم میں کیوں کوئی اروندھتی رائے نہیں ہے ؟
کیوں ہمارے یہاں کوئی شیکھر گپتا ، پنکج مشرا ، رویش کمار یا چندراگوہا پیدا نہیں ہوتا؟ جب بات حق کہنے کی آتی ہے تب ہماری زبانوں پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں ؟ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا! پہلے، جب انگریز اس ملک پر قابض تھے تب ہم میں ایسے لوگ موجود تھے جو سب کچھ سہہ کر بھی حق بولنے سے کتراتے نہیں تھے ، مولانا ابوالکلام آزاد ، حسرت موبانی ، مولانا محمود علی جوہر ، کتنے ہی نام ہیں ، پر آج ’کشمیر ‘ پر ہم میں سے کوئی نہ اروندھتی رائے کی طرح زبان کھولنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی کوئی رویش کمار کی طرح جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کو تیار ۔۔۔
اگر ہم آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے اب تک جبکہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو ٹھپ ہوئے 41 واں دن شروع ہوچکا ہے اور کرفیو ہے کہ مسلسل جاری ہے ، لوگ ہیں کہ جیلوں کے اندر اس طرح سے ڈال دیئے گئے ہیں کہ ان کی ان کے گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہے ، پیلٹ گنیں ہیں کہ رہ رہ کی چلتی اور لوگوں کے چہروں اور بدن کو بدنما بنارہی اور بینائی چھین رہی ہیں اور ہر جانب فوجی وردیوں کا ایک سیلاب نظر آرہا ہے ، اپنی اور دوسروں کی کشمیر کے حالات پر رپورٹوں ، تجزیوں ، اور روزمرہ کی خبروں کا جائزہ لیں تو خوب اندازہ ہوجائے گا کہ سچ کو جس طرح سے اجاگر کرنا چاہئے تھا ’ہم‘ نے تو نہیں کیا ہے پر ’ اُنہوں‘ نے کیا ہے ، اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے کیا ہے ۔۔۔۔
اروندھتی رائے صرف ایک ایوارڈ یافتہ ناول نگار نہیں ہے وہ انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ چیمپئن بھی ہیں ۔ ’مسئلہ کشمیر‘ پر وہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے بہت پہلے سے بولتی چلی آرہی ہیں ، ان کے ایک مضمون’آزادی‘ نے حکمراں جماعتوں کی نیندیں اڑادی تھیں۔ انگریزی ماہنامہ’ کیراوان‘( کارواں) میں ان کا کشمیر کے تازہ ترین حالات پر ایک تبصرہ ، تجزیہ وجائزہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے ۵؍ اگست کے روزمرکز کی مودی سرکار کے کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کے فیصلے کو ’’یکطرفہ فیصلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے بڑے ہی واضح لفظوں میں کہا ہے کہ مودی حکومت نے اپنے فیصلے سے ’’ان بنیادی شرطوں کو تار تار کردیا جن کی بنیاد پر جموں وکشمیر کی سابق ریاست ہندوستان میں شامل ہوئی تھی ۔‘‘ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کا فیصلہ ۵؍ اگست کو لیا گیا لیکن اس کی شروعات کئی دن پہلے ہوگئی تھی۔ محترمہ رائے تحریر کرتی ہیں ’’۴؍ اگست کو پورے کشمیر کو ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ، ۷۰ لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں بند کردیئے گئے ، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون خدمات بھی بند کردی گئیں۔‘‘ اور آج تک ۷۰ لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں قید ہیں اور مواصلاتی نظام ٹھپ پڑا ہوا ہے ۔ ۔۔
معروف مورخ رام چندرگوہا نے تو آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کو ’ ایمرجنسی کے نفاذ‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنا بالکل ۱۹۷۵ء میں ایمرجنسی کے نفاذ کی مانند ہے ۔‘‘ گوہا کے الفاظ بہت سخت ہیں ’’ یہ جمہوریت نہیں یہ آمریت ہے ، ایسے حواس باختہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے حکمرانوں کی کاریگری جو پارلیمنٹ کے اندر یا باہر مناسب مباحثے کی جرأت بھی نہیں رکھتے ۔‘‘
بات پھر اروندھتی رائے کی کرتے ہیں ۔ مواصلاتی نظام کو منقطع کئے جانے کے سرکاری اقدام پر ان کی تنقید انتہائی سخت ہے ۔ وہ لکھتی ہیں ۔’’ اطلاعات کے اس زمانے میں کوئی حکومت کتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کیسے کاٹ بھی سکتی ہے ، اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کشمیر کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہیکہ یہ ’تقسیم‘ کے ادھورے کاموں میں سے ایک ہے ۔ ’ تقسیم‘ جس کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر کے بیچ میں لاپروائی سے ایک لکیر کھینچ دی اور یہ مان لیا گیا کہ انہوں نے ’ مکمل‘ کو تقسیم کردیا ہے ۔ سچ یہ ہیکہ ’ مکمل ‘ جیسا کچھ تھا نہیں ۔ برطانیہ کے ماتحت ہندوستان کے علاوہ سیکڑوں آزاد رجواڑے تھے جن سے الگ الگ مول تول کیا گیا کہ وہ کن شرطوں پر ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ جائیں گے ۔ جوریاستیں اس کے لئے تیار نہیں تھیں ان سے زبردستی منوا لیا گیا ‘‘۔۔۔۔
اروندھتی رائے ہی کی طرح پنکج مشرا کا قلم بھی ’ مسئلہ کشمیر‘ پر ’ وہ بات‘ جو دوسرے نہیں کہہ پارہے ہیں ، کہنے سے نہیں چوکتا ۔ پنکج مشرا بھی عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور دانشور ہیں۔ ’کیراوان‘ ہی میں ان کا ’ مسئلہ کشمیر‘ پر ایک مضمون ’’کشمیر میں ہندوستان اپنے ہی پیروں پر گولی ماررہا ہے ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :’’ہرگذرتے ہفتے کے ساتھ کشمیر پر ہندوستان کا کریک ڈاؤن بڑھتا جارہا ہے ۔ انٹرنیٹ اور فون کی لائنوں کو کاٹ دینے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو حراست میں لے لیا گیا اور ایسا کرفیو نافذ کردیا گیا ہے جو اب تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکا ہے ، وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار ،نے اطلاعات کے مطابق ہزاروں کشمیریوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو بھی قیدخانوں میں ڈال دیا ہے ۔ ‘‘ پنکج مشرانے کشمیر کی ایک ’’نسلی مذہبی اقلیت‘‘کو’’دبانے‘‘ جانے کے اقدام کو ملنے والی بڑے پیمانے کی تائید کو سربیا کی نسل پرستی اور وہاں کے نسل پرست قائد سلوبودون میلوسووچ کے اقدامات سے تعبیر کیا ہے۔۔۔ ’میڈیا‘ کے خلاف ان کے قلم سے سخت الفاظ نکلے ہیں ۔ وہ تحریر کرتے ہیں ’’ہندوستانی میڈیا کی جانب سےملنے والی تقریباً اجتماعی حمایت نے مودی سرکار کو بے خوف کردیا ہے ۔ گذشتہ ہفتے اس سرکار نے حزب مخالف کے قائدین کے ایک وفد کو ، بشمول راہل گاندھی، کشمیر کے دورے سے روک دیا تھا۔‘‘ وہ غیر ملکی میڈیا میں ہندوستان پر کی جانے والی شدید نکتہ چینیوں کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :’’ صفحہ اول پر ، کشمیر کی خالی گلیوں میں پوری طرح سے مسلح فوجیوں کی ، چھپنے والی تصویریں یہ صاف کردیتی ہیں کہ یہ خطّہ پوری طرح سے فوجی تسلط میں ہے ‘‘۔۔۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ عالمی میڈیا اب کھل کر مودی سرکار کو ’ نسل پرست‘ اور ’ فاشست‘ لکھ رہا ہے ۔۔۔
سدھارتھ بھاٹیہ کا ماننا ہے کہ ’’ کشمیر میں جو ہوا اس کا مقصد کشمیریوں پر کنٹرول ہی نہیں ، ان کو ذلیل کرنا بھی ہے ‘‘۔۔۔ ان کا مضمون ’دی وائر اردو‘ میں شائع ہوا ہے ۔ انہوں نے بہت ہی صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ ’’ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹ کر، ان کو قابو میں رکھنے کے لئے سیکیوریٹی اہلکاروں کا استعمال ، اور روز روز کے توڑ پھوڑ کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ان کا ہر قدم اور وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے ، وہ اقتدار جس کی نمائندگی ایک بڑی اور ہرجگہ موجود فوج کررہی ہے ، جو ان کی روزمرہ کی زندگی میں دخل دیتی ہے ۔‘‘
انگریزی پورٹل ’’دی وائر‘ نے سواگتا یادوار کی کشمیر سے ایک دل دہلانے والی رپورٹ شائع کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’ کشمیر‘ کے محاصرے سے وہاں ’ ذہنی بیماریاں‘ پھوٹ پڑی ہیں ۔ رپورٹ کے دواقتباسات ملاحظہ کریں۔ ’’ وہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی ہے ، ڈاکٹر کے کمرے کے دروازے کے بغل میں ، کمپاؤنڈر کی میز پر پھیلے کاغذات اور بکسوں سے چھپی ہوئی ۔’’میں مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر مایوس ہورہی ہوں ، مجھے لگتا ہیکہ ہمارا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں ۔ ‘‘ ۲۴ سالہ زہرا نے جس نے قانون کی ڈگری لی ہے اور اب ریاستی سول سروسیز (جوڈیشیل) کے امتحان کی تیاری کررہی ہے ، ’انڈیا اسپینڈ‘ سے یہ بات کہی ۔ وہ ڈپریشن (مایوسی) کی مریضہ ہے ۔ تین برسوں سے اسے دواؤں کی ضرورت نہیں پڑی تھی لیکن آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد اس کا اضطراب پھر لوٹ آیا ہے ۔’’ اب میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں مرکوز کرپاتی ۔‘‘ زہرا ان ۱۵ مریضوں میں سے ایک ہے جو نیوروفیزئسٹ آکاش یوسف خان کے پاس بارہمولہ کے اس کی کلنک میں بغرض علاج آئے ہیں ۔ ‘‘ آٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے حالات دشوار ہوگئے ہیں۔ ’انڈیا اسپینڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق علاج ومعالجے کے لئے لوگوں کا آنا کم سے کم ہوگیا ہے اور ۵؍ اگست کے بعد ذہنی مریضوں میں سے بس چند ہی ہیں جوڈاکٹروں سے مل سکے ہیں ، نتیجے میں کشمیر میں ذہنی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں ۔ لوگوں کو مایوسی ، بے چینی اور اضطراب نے گھیر لیا ہے جسے ’ ڈپریشن‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔۔۔
’دی کوئنٹ‘ میں آدتیہ مینن نے کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے ’سورہ‘ علاقے کو کشمیر کا ’ غزہ‘ قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’سورہ میں اسی روز سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے جس روز حکومت نے جموں اور کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ مگر ۹؍ اگست کا بڑے پیمانے کا احتجاج سب سے زیادہ اہم تھا۔ اس احتجاج نے حکومت ہند کے بہت سارے دعوؤں کی ہوا نکال دی :
ےحکومت کے دعوے کے برعکس اس مظاہرے نے یہ دکھادیا کہ کشمیری آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے خوش نہیں ہیں ۔
ے بڑے پیمانے پر مظاہروں میں خواتین کی شرکت حکومت کے اس دعوے کے برعکس تھی کہ کشمیری خواتین نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے
ےسیکیورٹی اہلکاروں کی مظاہرین پر فائرنگ کی ویڈیو کو ثبوت مانا جارہا ہیکہ ، حکومت اپنی بات منوانے کے لئےطاقت کے استعمال کےلئے بھی تیار ہے ۔ ۔۔‘‘
یہ تو بس چندمضامین اور تجزیوں وجائزوں اور احوال سے لی گئی چند مثالیں ہیں ورنہ برادران وطن اور ایسے دانشوروں، سیاستدانوں اور صحافیوں کی جو ’ ہم ‘ میں سے نہیں ہیں ایک بڑی تعداد ہے جو ’ مسئلہ کشمیر‘ پر زبان کھول رہی ہے ، آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کو غیر جمہوری قرار دے رہی اور کشمیریوں پر جو کچھ ان دنوں بیت رہی ہے اس کا احوال پیش کررہی ہے ۔۔۔ جھوٹ کو جھوٹ کہہ رہی ہے اور حق کو حق ۔۔۔ نہ جانے کیوں ’ ہم‘ میں ایسے لوگ نہیں ہیں ، اور اگر ’مسئلہ کشمیر‘ پر ہماری زبانیں کھلتی بھی ہیں تو بڑے ہی احتیاط سے الفاظ نکلتے ہیں ، حکومت کے موقف کی تائید تو کی جاتی ہے ، اور کی بھی جانی چاہیئے، پر کشمیری عوام پر جو ان دنوں بیت رہی ہے اس کا ذکر سرسری کیا جاتا ہے ۔۔۔ کیا کوئی ’ ہم ‘ میں سے کھل کر بات کرے گا ۔۔۔۔ آخر میں اس مستعفی اعلیٰ پولس کے چند جملے ’ مسئلہ کشمیر‘ پر پیش ہیں جو کبھی پنجاب میں ’ انتہا پسندی‘ کے خاتمے کے لئے سرگرم تھا ۔۔۔ ممبئی کے سابق پولس کمشنر ، صدارتی میڈل یافتہ پدم بھوشن جولیوایف ریبریو۔۔ ’ کیراون‘ کے لئے ان کا ایک انٹرویو لیا گیا جس میں انہوں نے کہا :
’’فوج کو کبھی بھی اپنے ہی لوگوں سے لڑنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ ان کی تربیت دشمنوں سے لڑنے کے لئے ہے ۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ کشمیری مسلمان ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہیںتو آپ کو چاہیئے کہ ان سے اسی طرح سےپیش آئیں۔‘‘ کیا وہ لوگ جو کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ مان رہے ہیں ، جیسے کہ نریندر مودی ، امیت شاہ وغیرہ وہ جولیو ایف ریبریو کے مشورے پر عمل کرکے کشمیری مسلمانوں کو بھی ہندوستان کا اٹوٹ انگ مانیں گے ، یا ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادیں گے ۔ ؟؟
Comments are closed.