تبریز انصاری ماب لنچنگ :حقائق سے چشم پوشی کیوں۔۔۔؟

نازش ہما قاسمی
جھارکھنڈ میں ہندو دہشت گردوں کی دہشت گردی کے شکار تبریز انصاری کےقاتلوں پر سے پولس نے قتل عمد کی دفعات ہٹادی ہیں اور یہ کہا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔ جھارکھنڈکے سینئر پولس افسر کارتک ایس نے کہاکہ میڈیکل رپورٹ میں ہمیں قتل کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اس لیے ہم نے ملزمین کے خلاف قتل کے بجائے غیر ارادتاً قتل کی دفعات لگائی ہیں۔ وہیں تبریز کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ دہشت گردوں کی ہجومی بھیڑ نے تبریز کو اس قدر مارا پیٹا کہ اس کا سر پوری طرح سے پھٹ گیا تھا ۔ تبریز کی اہلیہ پروین نے کہاکہ میری تحریر پر پہلے دفعہ ۳۰۲ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، لیکن بعد میں انتظامیہ کے دباؤ میں دفعہ ۳۰۴ میں تبدیل کردیا گیا۔انہوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ میرے شوہر کےقاتلوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سی بی آئی اس معاملے کی تحقیقات کرے تاکہ مجھے انصاف مل سکے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ ظلم وناانصافی کے اس دور میں جہاں ہر روز ظالموں پر شفقت اور مظلوموں کے ساتھ بھید بھاؤ کیاجاتا ہو، جہاں اگر مجرم اقلیتی طبقے کا ہوتو وہ مجرم ہے؛ لیکن اگر وہ اکثریتی طبقے کا ہو خواہ اس پر بلاسٹ کا ہی الزام کیوں نہ ہو وہ مجرم نہیں ہوگا، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، سیاسی لیڈران اسے حوصلہ دیں گے، جیلوں سے ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد ان کا استقبال کیاجائے گا، اور مرنے کے بعد قتل کے ملزم کو ترنگے میں لپیٹ کر دفنایا جائے گا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تبریز کی بیوی پروین نے جو الزامات لگائے ہوں وہ سچ ہوں کہ انتظامیہ کے دباؤ میں آکر یہ سب ہورہا ہے۔ پہلے تو ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں ہندوستان کی خراب شبیہ پیش ہونے کے بعد تبریز انصاری کے قاتلوں کے خلاف قتل کا معاملہ درج کیاگیا؛ لیکن اب اسے دوسرا رخ دیتے ہوئے غیر ارادتاً قتل قرار دیاجارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ جس طرح چاہیے تھی اس طرح تیار کی گئی ہو؛ تاکہ ملزمین کو راحت پہنچائی جائے اور انصاف کا قتل کرکے جمہوریت کے جنازے میں کیل ٹھونکی جائے۔ آخر کس طرح اسے غیر ارادتاً قتل قرار دیاجارہا ہے جبکہ ۱۸؍جون کو مارے گئے تبریز انصاری کی ویڈیو موجود ہے جس میں لوگ اسے جان بوجھ کر مسلمان سمجھ کر مار رہے ہیں، کیا اگر وہ اقلیتی طبقے کے بجائے اکثریتی طبقے سےتعلق رکھتا، برہمن ہوتا، پنڈت ہوتا، یادو ہوتا تو اسے اس طرح بجلی کے کھمبے سے گھنٹوں باندھ کر مارا جاتا؟ اس سے جے شری رام کے نعرے لگوائے جاتے، رحم کی بھیک مانگنے کے باوجود اس کے ساتھ یہ سب کیاجاتا؟ چوری کا الزام عائد کرکے مسلمانوں کےعلاوہ آپ نے کسی سے سنا ہے کہ کوئی برہمن ہجومی بھیڑ کا شکار ہوکر مر گیا ہو اور اس کے اہل خانہ انصاف کے لیے در در بھٹک رہے ہوں؟ کسی پنڈت خاندان کے باپ بیٹوں کو گائے اسمگلنگ کے الزام میں مار دیاگیا ہو، کسی یادو کی بھینس کو گائے سمجھ لیا گیا اور اسے خوب مارا ہوکہ اس کی موت ہوگئی ہو؟ یہ سوال ہے ان لوگوں کا جو ہندوستان میں اپنے اوپر ہورہے ظلم کے خلاف لڑرہے ہیں اور انصاف کی دیوی سے انصاف طلب کررہے ہیں؛ لیکن انہیں انصاف نہیں مل رہا ہے،کبھی پہلو خان کےقاتلوں کوچھوڑا جارہا ہے تو کبھی اخلاق کےقاتل باہر ہورہے ہیں تو کبھی انصاری کے قاتلوں کے خلاف دفعات میں تخفیف کی جارہی ہے ۔
۱۸؍جون کو سرائے کیلا علاقے میں جو کچھ ہوا اس کی ویڈیو پوری دنیا میں گشت کر رہی تھی جس میں مبینہ طو رپر دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نوجوان جو رحم کی دہائی دے رہا ہے، رحم کی بھیک مانگ رہا ہے، اپنے چور نہ ہونے کی صفائی دے رہا ہے اس سے کس طرح جبراً جے شری رام کے نعرے لگوائے جارہے ہیں، اسے کس طرح مارا پیٹا جارہا ہے اور کس طرح بجلی کے کھمبے سے باندھ کر گھنٹوں اتنا مارا پیٹاگیا کہ جب اسے چوری کے الزام میں پولس کےحوالے کیاگیا تو وہ اپنے قدموں پر چلنے کے لائق نہیں تھا؛ لیکن پھر بھی پولس اسے گرفتار کرکے لے گئی اور حراست میں رکھا اس کی مناسب دیکھ ریکھ نہیں ہوئی ایس ڈی او بشارت قیوم نے ڈی سی کو سونپی گئی اپنی رپورٹ میں یہ واضح کیا تھا کہ سینی تھانہ اور سرائے کیلاتھانے کے انچارج سمیت دو ڈاکٹر بھی اس لاپرواہی کے ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے تبریز کی موت کے بارے میں کہاتھا کہ سرکی ہڈی ٹوٹنے سے اسے برین ہیمبرج ہوگیا اور اس کی موت ہوگئی ۔ ان کی رپورٹ کے بعد دونوں تھانہ انچارج کےخلاف کارروائی کی گئی تھی؛ لیکن ان کی رپورٹ بھی اب ردی کے ٹوکرے میں رکھ دی جائے گی؛ کیوں کہ انتظامیہ جس طرح سے پپو منڈل اور اس کے قاتل ساتھیوں پر مہربان ہے ممکن ہے بعد میں تبریز ہی پہلو خان کی طرح مجرم قرار دیاجائے۔ اس موقع پر مسلم قائدین سے سوال ہے کہ آخر کب تک ماؤں کو بیوہ، بچوں کو یتیم کیے جانے کی اسکیم پر عمل درآمد ہوتا رہے گا؟ کیوں نہیں اس کے سدباب کے لیے کوئی ٹھوس قدم اُٹھایاجارہا ہے؟ انصاف میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ مظلوم آس لگائے مرجاتا ہے؛ لیکن اس کی زندگی میں اسے انصاف نہیں مل پاتا ہے۔ کچھ ایسا کیا جائے کہ انصاف میں تاخیر نہ ہو، انتظامیہ پر اس طرح اثر انداز ہواجائےکہ وہ ظالموں کی حمایت چھوڑ دے اور مظلوموں کو انصاف دینے پر مجبور ہوجائے۔
Comments are closed.