” صحرا کا شیر ؛ عمر المختار "

ساجد حسین سہرساوی

آج سے ٹھیک ۸۸ سال قبل ایک ۷۳ سالہ نہتے شخص کو ہزاروں مسلح اور خاص تربیت یافتہ فوج جسم ظاہری سے وزنی اور بھاری بھرکم زنجیروں میں جکڑ کر اپنے ہی لوگوں کے درمیان وقت کے سپر پاور کنٹرول اور طاقت ور حکومت کے حکم سے تختہ دار کے حوالہ کرنے کےلیے لے جارہی تھی ، تاحد نگاہ ہجوم عاشقان کے بیچ جب اس شخص کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالا گیا تو وقت کے ظالم تک کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں.
ایک چھوٹے سے گاؤں اور بےنام گھرانے میں پیدا ہونے والا شخص پیشہ کے اعتبار سے ایک پھونس کے مدرسے کا معلم تھا جس کی حیثیت بھی صرف اتنی کہ چند بچے آتے تو آتے ورنہ تن تنہا تلاوت کلام اللہ میں وقت گزرتا ، زندگی کی تمام بہاریں اسی بےکسی کے عالم میں گزر گئیں اب جبکہ موسم خزاں آ چکا اور قوت جسمانی بڑھاپے کا الارم بجا چکی تو ایک ایسی آزمائش سر پر کھڑی ہوگئی جس کا مقابلہ اس ناتواں جسم کے بس میں نہیں تھا ؛ لیکن خون مسلم کو کہاں گوارا ” طوق غلامی ” اسے کب زیبا دیتا ہے ” ظلم کے خلاف خاموشی ” اس کی نظر کب ہوتی ہے اپنی "بےسرو سامانی” پر ، یہ کہاں دیکھتے ہیں اپنی تعداد و کوتاہ دستی کو ؟.
جس وقت اطالوی کا داخلہ لیبیا میں ہوا اور اپنے وعدے پر کاربند نہ رہ سکے ، اس وقت اس بےرحم و عہد شکن فوج کا مقابلہ کرکے حصول آزادی کےلیے جس مرد قلندر نے جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعئی مسلسل کی اسے تاریخ عالم ” عمر المختار” رحمة اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے.
یہ واقعہ اکتوبر ۱۹۱۱ء کا ہے اس وقت عمر المختار ۵۳ برس کے تھے ، پاس ظاہری اسباب کا نام و نشان تک نہیں تھا ، البتہ تدبر قرآنی نے صحرائی نشیب و فراز سے ضرور آشنا کرا دیا تھا ، خبر ملی کہ اطالوی فوج درندگی سے کم پر راضی نہیں ہورہی اور وعدہ وفا کرنے کے بجائے مسلسل تین دنوں سے طرابلس پر حملہ آور ہے ، اپنی ایک چھوٹی سی فوج تشکیل دی اور پھر وقت کی عظیم طاقت سے لوہا لینے لگ گئے ، دنیا کو وہ منظر بھی خوب یاد ہےکہ ایک بےسروسامان نحیف و لاغر شخص سے فرعون وقت مسلسل بیس سالوں تک جنگ کرتے رہے ، اور اپنا قیمتی سرمایہ اس شخص کے پیچھے لٹا دیا اور بیس برس کی لگاتار محنت و مشقت اور بےشمار نوجوانوں کے کھونے کے بعد جو کچھ ہاتھ لگا وہ ایک ۷۳ سالہ ضعیف شخص تھا جس کا کل سرمایہ ایک سفید قمیض اور ایک تہبند تھا.
” عمر المختار ” اس نام کا فلسفہ آج تک حکومت اٹلی کی سمجھ سے بالاتر ہے ، وہاں کی حکومتوں کے رونگٹے آج بھی اس نام کو سننے سے کھڑے ہو جاتے ہیں ، آج بھی یہ نام ان کےلیے ایک ڈراؤنا خواب ہے جس کو دوبارہ دیکھنے کی سکت نہیں پاتے ، یہ نام آج بھی ان کے دل و دماغ کو مشتعل کر دیتا ہے.
سن پیدائش: ۲۰ اگست ۱۸۵۸ء.
سن وفات: ۱۶ ستمبر ۱۹۳۱ء ، پھانسی کی سزا.
لیبیا میں ” دس دینار ” کی نوٹ پر ان کی تصویر نقش ہے اور دیگر تاریخی مقامات ان کے نام سے موسوم کیے گئے ہیں ، اہل لیبیا کےلیے یہ نام باعث فخر و مباہات ہے اور مسلمانان عالم کےلیے باعث عزت و احترام ، نہ صرف لیبیا بلکہ ساری دنیا میں "صحرائی شیر ” کے لقب سے جانے جاتے ہیں ، دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ نے ۱۹۸۱ء میں ان کی زندگی پر ایک فلم ” Lion of the Desert” ﴿ صحرا کا شیر ﴾ کاسٹ کی ، اس فلم کے لیے سرمایہ لیبیا کی معمر القذافی کی حکومت نے مہیا کیا تھا ، فلم کی کہانی اطالوی کا لیبیا پر قبضہ کرنے کے ارد گرد ہی گھومتی ہے اسلیے حکومت اٹلی نے اگلے ہی سال ۱۹۸۲ء میں اس پر اپنے ملک میں پابندی عائد کر دی.
پر صد افسوس کہ اس مرد مجاہد کی سوانح اور حیات و کارنامے پر اہل قلم نے جزرسی سے کام لیا ، اور اہل زبان نے ان کی پامردی کو بھاؤ نہ دیا ، نہ ان پر خاطر خواہ مقالے لکھے گئے اور نہ ہی کالم لکھنے کی کسی نے زحمت اٹھائی ، تلاش بسیار کے بعد ایک دو کتابیں ہی عربی زبان ﴿ سب سے معتبر کتاب ” الشیخ الجلیل عمر المختار ؛ نشأته و أعماله و استشهاده ” مصنفہ الدکتور علی محمد الصلابی ہے ﴾ میں مل سکی جو کہ ناکافی ہے ، دیگر مشہور زبانوں میں ان کا تذکرہ نہ کے برابر ہی ملتا ہے ، کاش کوئی صاحب قلم اس مرد حریت پسند کی سوانح پر اردو میں قلم اٹھانے کی زحمت کرتے یا خوبصورتی سے صرف عربی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنے کی جسارت کرتے ؛ اے کاش!!!

Comments are closed.