وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
ہم تو خیر آشفتہ ساماں ہیں ہمارا کیا سوال
وہ تو سنوریں جن کو آئینہ ملا شانہ ملا
بے حسی، بے دلی اور بزدلی جیسے الفاظ امت مسلمہ کیلئے منکر سمجھے جاتے تھے، معاشرے میں اگر کوئی ان کا استعمال بھی کرتا تو اسے حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اسلامی تاریخ کا کوئی صفحہ ایسا نہیں جہاں پر مسلمانوں نے بزدلی کی کوئی ایسی مثال پیش کی ہو جسے پڑھ کر عار محسوس کیا جائے، اگرچہ کہ تاریخ میں مسلمانوں نے مظلومیت کا وہ دور دیکھا جسے پڑھ کر اور جان کر نگاہیں اشکبار ہوجاتی ہیں، دل پتھر بن جاتا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ شاید مورخ نے کوئی چوک کردی ہو؛ لیکن ان مراحل میں بھی بزدلانہ کردار شاذ و نادر ہی نظر آئیں گے، دراصل اسلام اور مسلمان کے مابین بہادری، شجاعت، بے جگری کا تعلق ہوتا ہے، یہی اس کا وصف خاص ہے، سربکف ہونا اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردینا ہی اس کا اصل شوق ہوتا ہے، مرنا اس کی زندگی ہے، جینے سے بڑھ کر شہادت اس کا مقصود ہے، لذتیں اور خواہشیں اس کے لئے عارضی اشیاء ہیں، سب کچھ قربان کر کے صرف اپنے معبود کیلئے سر کٹا دینا اور پیوند خاک ہوجانا ہی اصل ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کا قرآن سے دور ہونا، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخ اسلام سے بیزار ہونا اور ایمانی حلاوت سے محروم ہوجانے نے انہیں ایک عام انسان بنا دیا ہے، اب کفر کا قلعہ مضبوط ترین لگنے لگا ہے، سیاسی میادین ان کے قبضہ میں ہیں اور مسلمان کاسہ گدائی لیے ان کے سامنے کھڑے ہیں، شطرنج کی بساط پر اب وہ صرف اور صرف مہرہ بن کر رہ گئے ہیں، ہر ایک انہیں موقع بہ موقع استعمال کرتا ہے، پیادہ ہیں، چلادیے جائیں تو چل جاتے ہیں اور اگر چھوڑ دئے جائیں تو ماتھا پیٹتے رہتے ہیں۔
عالمی اخبارات پر نگاہ رکھیے اور یورپی مسلمان سے لیکر خلیجی اور ایشائی تمام مسلمانوں کے احوال پڑھیے، ان میں ترکی، قطر اور بہت حد تک ایران اور بعض ممالک کو چھوڑ دیا جائے تو عمومی ممالک اسلامیہ کسی نہ کسی کے در کے پٹھو ہیں، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ان خود مختار ممالک کا یہ حال ہے تو ان ممالک کے مسلمانوں کا کیا حال ہوگا، جہاں مسلمان اقلیت میں اور کمیت و کیفیت ہر اعتبار سے پچھڑی ہوئی زندگی جی رہے ہیں، بالخصوص متحدہ ہندوستان جہاں مسلمانوں کو ایک غرہ ہوا کرتا تھا، اپنے ماضی کا اور اپنی شہنشاہیت کا____ وہاں کا حال اب کیا ہے؟ خاص طور سے ابھی ایسی ایسی کہانیاں سامنے آرہی ہیں ہے کہ سر شرم سے جھک جائے، آباء و اجداد کے پیرووں اور اسلاف پرستوں نے سیاست کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی ہے، کہتے ہیں کہ مستشرقین ایک زمانے میں یہ شعار اپنائے ہوئے تھے؛ کہ مسلمانوں کو ان کے ماضی سے بدگمان اور حال سے بیزار اور مستقبل کے تعلق سے ناامید کردیا جائے___ اب اس کام کیلئے مستشرقین کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ کام خود انہیں کے باشرع لوگ انجام دے رہے ہیں، اپنی ہی تاریخ کو منسوخ کرنے اور اپنے ہی لوگوں کو حکومت کی چوکھٹ پر دست بستہ کھڑا کرنے میں کامیاب ترین کوشش کر رہے ہیں، مصلحت اور سیاست کی چادر تانے پوری امت مسلمہ کو گمراہی میں لپیٹنے کی پرزور کوشش ہے، خدا خیر!!! وہ تو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ غیبی طاقت ہے، ورنہ کوئی بعید نہیں کے یہ بہت سے حدود پار کر جاتے؛ لیکن اللہ کا وعدہ ہے” انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون”۔
15/09/2019
Comments are closed.