مرزا اسد اللہ خاں غالب کی خودداری!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
مرزا اسد اللہ خاں غالب جن کی عرفیت نوشا تھی، ہندوستان کی ان عظیم ہستیوں میں سے ہیں جن سے ہندوستان کا سر بلند ہوتا ہے، ان کی شاعری اور شخصیت کو پڑھ کر، جان کر ادبیات کی دنیا کا فرد فخر کرے، ان کے اشعار میں زندگی کی کشمکش، غزل، ترنم اور ساز یوں پایا جاتا ہے، جیسے پایل کی جھنکار اور کسی بانسری والے کی سنگیت ہو، کان سے ہو کر دل میں اتر جانے کا فن خان صاحب کا خاص فن ہے، ان کی تہتر برس کی زندگی نے دائمی زندگی کا رس گھولا ہے، فضا، ہوائیں اور خلائیں ان کی پرسوز آواز اور نغمگی سے گونج رہی ہیں، آپ کبھی ان کا دیوان پڑھ کر دیکھئے! لیکن زبان سے نہیں دل کی نگاہ سے پڑھئے، عقل کی پرت باریک کر کے قلب کے گداز کی تہہ موٹی کر کے اور سینہ کو محبت و شفقت اور غم کی لازوال دولت سے بھر کر دیکھئے! پڑھئے! گائیے اور گنگناتے جائیے! لطف اٹھائیں زندگی کا اور زندگی میں گم ہوجانے کا۔ دیوان غالب اگرچہ مختصر ہے لیکن جتنا مختصر ہے اتنا ہی مقبول اور دنیائے شاعری میں معتبر ہے، غالب کی شاعری گنجینہ معانی ہے، سمندر کی سی گہرائی ہے، کنارہ تراشتے جائیے لیکن ساحل نہیں ملتا، عقل حیران ہوجائے گی اور دماغ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا؛ کہ کسی انسان کا یہ کلام کیا ہی خوب کلام ہے، اس کے سربیانی کی بنا پر بعض نادانوں نے اور ناقدوں نے اسے الہامی کتاب کہہ دیا ہے، ناظم طباطبائی سے لیکر کرمالک رام تک متعدد اہل دانش نے و ادب نے کلام غالب کہ شرحیں لکھی ہیں، ان کے اشعار کو گانے والوں نے سنگیت میں اسے ڈھالا؛ بلکہ مشہور مصور عبدالرحمن چغتائی نے دیوان غالب کو مرقع چغتائی کی شکل میں شائع کیا ہے، اور اشعار کی تشریح مختلف رنگوں اور تصویروں کے ذریعے کی ہے۔
مرزا غالب کو یہ فن کیسے ملا اور وہ اس مقام پر کیسے پہونچے؟ یہ سوال تو بہر حال انسائیکلوپیڈیا چاہتا ہے، لیکن ان کی زندگی کا ہر صفحہ اس کی ایک داستان ہے، بالخصوص ان کے اندر موجود ان کی خودداری اور مروت وہ شئی ہے، جس نے ان کے اشعار میں بھی الگ نمایا جگہ پائی، لکھنے والوں نے ان کی زندگی کے اس پہلو کو خوب بیاں کیا ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں؛ کہ آپ کی طبیعت میں کس قدر وضعداری و خودداری تھی۔ دہلی کالج ۱۸۲۵ء میں قائم ہوا تھا، اسلامی علوم کے ساتھ یوروپ کے علوم کی بھی اس میں تدریس ہوتی تھی اردو کے بہت سے مصنفوں اور ادیبوں نے اس کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ۱۸۴۹ء میں انگریزی حکومت کے دوران اس کالج کیلئے فارسی کے استاد کی ضرورت محسوس کی گئی، غالب کا نام تجویز کیا گیا، وہ بلائے گئے۔ غالب پالکی میں سوار ہو کر کالج آئے، اتر کر کھڑے ہوئے، انتظار کرنے لگے کہ سکریٹری صاحب ان کا استقبال کریں گے۔ جیسے دو دن پہلے ان کی آمد پر اور اس منصب پر بحالی کیلئے ان کا استقبال کیا گیا تھا، مگر سکریٹری صاحب اس بار نہیں آئے۔ سکریٹری صاحب نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ غالب آئے تھے اور چوں کہ ان کا استقبال نہیں کیا گیا، اس لئے وہ باہر ہی سے واپس چلے گئے۔ سکریٹری صاحب نے کہا غالب کی بحالی ہو چکی ہے، اب وہ اساتذہ کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب انہیں خود سے آنا چاہئے تھا۔ غالب کو سکریٹری صاحب کی باتیں معلوم ہوئیں تو انہوں نے جواب میں لکھ بھیجا: نوکری کا ارادہ اس لئے تھا کہ عزت اور بڑھے گی نہ کہ موجودہ وقار میں کمی ہوجائے گی____ غالب کی زندگی اس شعر کی عکاسی تھی:
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر نہ ہوا
(مشاہیر شعر و ادب: ۶۰)
16/09/2019
Comments are closed.