مدارس اسلامیہ کے نصاب کی تبدیلی

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
جہاں تک بات ہے مدارس اسلامیہ میں نصاب کی تبدیلی کی تو درس نظامی میں کسی قسم کی تبدیلی کی چنداں ضرورت نہیں، منطق وفلسفہ کو بدستور داخل نصاب رکھاجائے، کیونکہ منطق وفلسفہ فہم قرآن وحدیث میں معین ومددگار ہیں، منطق وفلسفہ کے بغیر قرآن کی بہت سی آیات اور بہت سی احادیث کامطلب کماحقہ نہیں سمجھاجاسکتا ہے، میرے خیال سے مدارس کو اپنے حال پر باقی رکھاجائے، طالبان علوم نبوت کو شرعی علوم میں مہارت تامہ حاصل کرنے کابھرپور موقع دیاجاناچائیے، درس نظامی کے ساتھ عصری علوم کو بھی داخل نصاب کرنا گویاکہ ناکارہ مولویوں کوتیار کرنا ہے جو نہ قرآن وحدیث میں مہارت رکھیں گے نہ ہی عصری علوم میں، بلکہ ہمارے اکابرین نے جس مقصد کے لئے مدرسوں کی بنیاد رکھی وہ مقصد بھی فوت ہوجائے گا،دوکشتی پر سوار ہونے والا کسی کام کانہیں رہتا، عصری علوم سے اسلام منع نہیں کرتا لیکن جب تک ہمارے طلباء شرعی علوم میں ماہر نہیں ہوجاتے عصری علوم بھی ساتھ ساتھ پڑھانا نقصان دہ ہے، اس لئے درس نظامی کے ساتھ عصری علوم کو بھی پڑھانا نقصان دہ ہے، ہاں یہ ہوسکتاہے کہ درجہ آٹھ تک پرائمری کانظم کیاجائے، اور اس میں جو سرکاری نصاب ہے وہی کتابیں داخل کی جائیں پرائمری کے بعد ہی حفظ میں داخلہ لیاجائے، توان شاءاللہ پرائمری 8تک پڑھنے کے بعد عصری علوم سے اچھی طرح واقف ہوجائے گا، ویسے اس وقت اشد ضرورت اسلامی کالج واسکول کی ہے، جہاں دینی ماحول میں بچوں کو عصری تعلیم دی جائے، ایسے کالج میں مدارس اسلامیہ کے فارغ فضلاء بھی تعلیم حاصل کریں،مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھ کر ارتداد وبددینی کے دلدل میں پھنس رہی ہے، ان کو بھی اس دلدل سے نکالنے کی فکرکرنی چائیے، ایسے اسکولوں کے قیام کی اشد ضرورت ہے جہاں دینی ماحول میں رہ کر عصری علوم حاصل کیاجاسکے.
Comments are closed.