نوجوانوں میں صبر و تحمل کا فقدان

عبد المنان قاسمی
یہ بات ارباب دانش وبینش اور عقل وفہم رکھنے والے افراد سے مخفی نہیں کہ کسی بھی معاشرہ کی آن، بان اور شان اس کے نوجوان ہوا کرتے ہیں، جس معاشرہ اور سماج میں نیک صالح، امانت ودیانت کے پیکر اور قوت برداشت وقوت بازو سے لیس نوجوانوں کی کھیپ ہو، وہ معاشرہ سماج اور سوسائٹی میں سب سے زیادہ مضبوط، سب سے زیادہ مستحکم اور طاقتور شمار ہوتی ہے۔اس کے بالمقابل جس معاشرہ اور سماج کے نوجوان نکمے، خسیس، بد چلن، بد معاش، بدقماش اور عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں، وہ معاشرہ سب سے زیادہ بدنام اور گری ہوئی نگاہ سے دیکھا جانے والا ہوتا ہے۔
جب ایک معاشرہ کی ایسی تقسیم ہوئی کہ نوجوانوں پر اس کی اچھائی اور برائی کا مدار ٹھہرتا ہے، اور یہیں تک بات ختم نہیں ہوتی؛ بلکہ اس سے کہیں دور جا نکلتی ہے، کہ نوجوانوں سے سماج اور پھر مختلف سماج ومعاشرے مل کر ایک ملک بنتا ہے اور پھر یہ اچھائی یا برائی پورے ملک کی طرف منسوب ہوتی ہے اور یہی نوجوان ملک کی نیک نامی؛ یا بدنامی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
تو ایسے میں نوجوانوں کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کس طرح بنائیں، سنواریں اور کس طرح اپنے آپ کو معاشرہ کے سامنے پیش کریں کہ ان پر معاشرہ فخر کرے اور اپنی نیک نامی کا وسیلہ جانے۔
جہاں آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے نوجوان تیار ہوں، جو علمی، اخلاقی، تہذیبی اور تربیتی اقدار کے دامن گیر ہوں اور ہر طرح کی خوبیوں سے لیس ہوں۔
وہیں اس بات کا بھی خیال رہے کہ وہ معاشرہ کے مضبوط ستون جب ہی بن پائیں گے، جب ان میں صبر وتحمل اور قوت برداشت بھی علی وجہ الاتم موجود ہو؛ کیوں کہ قوت برداشت کے بنا، معاشرہ میں یکسانیت برقرار نہیں رہے گی اور صبر وتحمل کے بنا معاشرہ پرسکون نہیں رہے گا۔
اور آج معاشرہ میں جہاں دیگر اخلاقی برائیاں پیدا ہوگئی ہیں، علمی انحطاط اور تربیت کا فقدان ہے؛ وہیں نوجوانوں میں سب سے زیادہ کسک اور کمی عدم برداشت اور صبر وتحمل کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج کی نئی نسل اور مستقبل کے سرمایہ، یعنی نوجوان، معاشرہ کی نیک نامی اور نیک نیتی کا ذریعہ بننے کے بہ جائے، بسا اوقات قوم وملت کی بدنامی اور شرم ساری کا ذریعہ بن جاتے ہیں، جس سے پورے معاشرہ کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
حالات کس قوم پر نہیں آتے؟ برے ہوں یا اچھے؛ ہر طرح کے حالات دائمی نہیں ہوتے۔
اگر ہمیشہ اچھے حالات ہی رہیں، تو قوم بے اعتدالی کا شکار ہوجائے گی اور اگر ہمیشہ برے حالات ہی رہیں، تو قوم بکھر جائے گی۔
اس لیے ہر دو طرح کے حالات ضروری ہیں؛ کیوں کہ اسی سے زندگی کا حسن برقرار ہے، نشیب وفراز قوموں کی تقدیر ہے۔
اور عدم برداشت اور صبر وتحمل کا فقدان، زندگی کی اصلیت اور حقیقت سے ناواقفیت کی واضح دلیل اور بین ثبوت ہے۔
اگر ہم بات کریں اپنے وطن عزیز کے حالیہ تناظر میں، تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسی عدم برداشت کا نتیجہ ہے کہ آج پورا ملک بے چین ہے، ہر طرف خوف ودہشت کا ماحول ہے اور اسی عدم برداشت نے ملک کی بنیاد کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے؛ حتی کہ ملک کی سیکولر کہی جانے والی حکومت بھی اس عدم برداشت کا شکار نظر آتی ہے۔
آج ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں؛ بل کہ یہاں تو پورا نقشہ ہی الٹا ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگا ہوا ہے، ہر کوئی بے اعتدالی اور بے راہ روی کا شکار ہے، ہر کوئی معاشرہ میں گندگی پھیلا رہا ہے۔
صبر وتحمل نام کی تو کوئی چیز ہی نہیں رہی۔
ہر کوئی بے صبری کا مظاہرہ کر رہا ہے، ہر کوئی وقت کی نزاکت کو محسوس کیے بغیر کچھ بھی بول جاتا ہے، جس سے پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
ایسے میں جس طرح کے نوجوانوں کی ضرورت ہے،
وہ تیار ہوں گے اعلی تعلیمی زیور سے آراستہ ہونے سے، وہ تیار ہوں گے اخلاقی اقدار پر کاربند ہونے سے، وہ تیار ہوں گے تہذیب وتمدن اور شائستگی وشگفتگی پر کھرا اترنے سے،وہ تیار ہوں گے آپسی رواداری اور بھائی چارے سے۔وہ تیار ہوں گے اخوت ومحبت کی فضا عام کرنے سے۔
وہ تیار ہوں گے صبر وتحمل اور قوت برداشت وقوت بازو کی دولت سے مالا مال ہونے سے۔
امید کی جاتی ہے کہ ہمارا سماج ایسے نوجوان تیار کرنے میں کامیاب ہوگا، جو اس کی تہذیب وتمدن اور اقدار کی پاس داری اور اس کی نیک نامی کا ذریعہ بنیں اور جو قوم وملت کے نگہبان اور وطن کے ترجمان بنیں۔
بہ وقت تحریر یہ ایک خواب سا لگتا ہےجسے حقیقت میں تبدیل کرنا ہم سبھوں کی ذمہ داری اور فریضہ ہے۔
[email protected]
Comments are closed.