یہ طوفان بدتمیزی کا دور!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
علم انسان کو انسان بناتا ہے، اس کی شخصیت کو نکھارتا ہے، انسان کے اندر کی انسانیت کو جگاتا ہے، زندگی جینے کے طور طریقے بتاتا ہے، وہ کارآمد بن کر پوری قوم اور انسانیت کیلئے مفید ثابت ہوتا ہے، اس سے اتحاد و اتفاق اور باہمی تعاون کا چشمہ پھوٹتا ہے، اہل علم کو نقطہ اتحاد جان کر لوگ ان سے جڑتے ہیں، وقت کی بے سروسامانی میں اور طوفان بدتمیزی میں انہیں کا سہارا لیتے ہیں، ان کی پناہ میں آکر شیطان کی تمام تحریکات اور بنے گئے جال کو بکھیر کر رکھ دیتے ہیں؛ لیکن ذرا رکیے! یہ کیا؟ ہم اسے صرف پڑھ رہے ہیں، زمینی حقائق تو کچھ اور ہی کہتے ہیں، دوسروں کی ہم بات نہیں کرتے، وہ تو جو ہیں وہ ہیں؛ لیکن خود مسلمانوں کی صفیں اور ان کے دانشوروں کا کیا حال ہے؟ وہ بھی علم کے فوائد اور ان کی حقیقی روح سے بے خبر ہیں، آج معاشرے کی سب سے پرفتن اور سب سے زیادہ منتشر قوم ان کے پڑھے لکھے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔
جی ہاں کہنے دیا جائے!!! زندگی کا ایک بڑا حصہ تعلیم و تعلم کے میدان میں گزارا، دقتیں برداشت کیں، زمانے کی ڈھوکریں کھائیں، اپنے پرایوں کا غم کھایا، خود کو وقت اور حالات کے سامنے پٹک کر علم حاصل کیا، مگر جب ان سے امیدیں باندھی جانے لگیں، توقعار لگائے جانے لگے؛ تو وہ سوسائٹی میں دولت و ثروت اور نام نہاد شہرت کی چھاؤں میں سب کچھ بھول گئے، بلکہ بسااوقات اخلاص و محبت اور خدمت کی آڑ میں انسانیت کا چولہ اتار پھینکا، دینداری کی عبا چاک کردہ، کوئی حکومت کے تلوے چاٹنے لگا، کوئی سماج کی گندگی دور کرنے کیلئے خود کو ہی گندہ کرنے لگے، اپنی اپنی صلاحیتوں کا ناجائز استعمال کر کے عوام کو مسحور کرنے لگے، اپنے مریدین کہ فہرست بڑھانے اور اپنی پگڑی اونچی کرنے کی فکر لاحق ہوگئی، کچھ بھی پوجائے، کوئی بھی قیمت چکانی پڑے، امت کا کوئی دھڑا شل کیوں نہ ہوجائے لیکن مفاد سے انحراف کو غیر ایمانی اور غیر اخلاقی گرداننے لگے۔
سنبھلنے ہی نہیں دیتا غم یاران میخانہ
کہاں کی مے کشی کیسی صراحی کیسا پیمانہ
غبار کارواں سے کارواں کو ہم نے پہچانا
جہاں تھی شمع محفل اڑ رہی ہے خاک پروانہ
یقین جانئے! یہ اہل علم اپنی تحریر و تقریر میں ایسی بحثیں چھیڑتے ہیں، جن کے بارے میں شاید ہی عند اللہ مسئول ہوں، یعنی وہ اس کے مکلف ہی نہیں۔ ماضی کو کریدتے ہیں اور حال سے غافل رہتے ہیں، تاریخ کو مسخ کرتے ہیں، اپنی لاعلمی کا بھی اقرار کرتے ہیں، ان کے سامنے انسانیت مر رہی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن حب وطنی کے پردہ میں نہ جانے کن مقاصد کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں؛ فی الواقع مسئلہ پر زبان نہیں کھلتی، قلم ٹوٹ جاتا ہے، قدم لڑکھڑا جاتے ہیں، غور کیجئے! ملک کے حالات دن بدن کس رخ پر جارہے ہیں، ہندوازم کا جال پوری طرح پھیل چکاہے، قریب ہے کہ جمہوریت کی آخری اینٹ گرادی جائے؛ لیکن یہ داناں امت کو انتشار میں یوں شرابور کئے ہوئے ہیں، جیسے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں؟ سوشل میڈیا ان کا خاص پلیٹ فارم ہے، جہاں وہ حقیقی جہالت کا مشاہدہ کرواتے ہیں۔ دراصل وہ بتاتے ہیں کہ علم وعمل کی چاردیواری ان کیلئے کوئی کارگر نہ ہو سکی، وہ اندھ بھکتی کیلئے پیدا کیے گئے ہیں، ایک دوسرے کو افضل و مفضول کی بحثوں میں مبتلا کر کے ان کے پس پردہ پڑی انسان دشمن کو تقویت پہونچا رہے ہیں۔
*یہ لوگ اپنے فیس بک وال پر یا واٹس اپ وال پر چھینٹہ کشی کرتے ہیں، کردار کشی کرتے ہیں، خدا جانے امت کی فلاح و بہبودی کا کوئی موضوع انہیں کیوں سمجھ نہیں آتا؟ وہ کیوں دشمان اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کرنے کے بجائے اپنوں ہی کے خلاف محاذ آرا رہتے ہیں؟ کیوں وہ قیادت کی بھوک میں امت پر قیامت ڈھاہ رہے ہیں؟ کیا انہیں خدا کا خوف نہیں؟ وہ قرآن کو سنت کو نہیں مانتے؟ یا پھر نادانی کے دلدل میں سر تا پیر اتر چکے ہیں؟ ان کے سامنے عالمی طاقتوں کی درنگی اور ملک میں کشمیر_ لنچنگ_ این، آر، سی_ معیشت اور زعفرانیت کا بھوت نظر نہیں آتا؟ جو کسی بھی پل پوری امت کو بلکہ پورے ملک کو نگل جانے پر آمادہ ہے؟ تف ہے! ایسی ڈگری پر اور ان اسناد عالی پر__ سنبھل جائیے! کہیں ایسا نہ ہو حریم ظلمت کے سارے پردے اٹھادئے جائیں اور سب کے سب رتوندی اونٹی کی طرح کسی ریگستان میں بھٹک بھٹک کر جان دے دیں۔
مے خانہ میں قحط مے گلفام پڑا ہے
شیشہ کہیں پھینکا ہے کہیں جام پڑا ہے
اس ناز کے قربان اس انداز کے صدقے
گھر بیٹھے ہو اور شہر میں کہرام پڑا ہے
18/09/2019
Comments are closed.