وہ مٹی کے گھر _ وہ مٹی کا انساں

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043

انسان مٹی کا بنا ہے، مٹی سے ہی اس کی زندگی ہے، اور خاک میں ہی گم ہوجانا ہے، یہی اس کا امتیاز ہے، اسی سے اس کی اٹھان ہے، شیطان نے اپنی تعلیم کا اظہار کیا، گھمنڈ اور تکبر کا برتاو کیا؛ کیونکہ وہ آگ سے بنا تھا، اس کے شعلے نے دماغ و اذہان پر ایسی پرت ڈالی کہ اطاعت و بندگی اور فرمانبرداری سے بھی محروم ہو گیا، وہ راندہ درگاہ باری تعالی ٹھہرا، پستی میں پھینک دیا گیا، ذلت اس پر مسلط کردی گئی، نامہ سیاہ میں لکھ دیا گیا، جنت کی بادشاہت، علم کی فرمانروائی سے محروم ہوگیا، اور اس کی اوقات یہ ہوگئی کہ ایک مٹی کے مجسمے سے بھڑ گیا، اس نے وقت قیامت تک مہلت مانگی، اور اسی کے مقابلے میں خود کو مسمار کردینے کی ٹھان لی، یہ ساری لڑائی اس کی مٹی کے تودے سے تھی، کیونکہ اس مٹی نے اس کو فرشتوں کا مسجود بنا دیا، علم کا امین اور نگاہ نازنین بنا دیا تھا، محبت کا گل اسی سے نکلتا، عشق کی داستان اسی کی مٹی سے لکھی گئی، اور اسی خاک کے پلندے کیلئے رب کائنات کا دست شفقت اٹھا اور اسے مالا مال کرگیا، اسے معزز ترین ہونے کا اعزاز دیا، اس سے قربت شہ رگ سے بھی زیادہ قریب بتلائی، اور اس سے باڑی بات کیا ہوگی کہ وہ اس کا خلیفہ و جاں نشین قرار پایا، اسی لئے تو خدا کا ہاتھ اس کے ہاتھ کے اوپر ہے، شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہاتھ ہے الله کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز
آج انسان نے نہ جانے کتنی ترقی کر لی ہے، ہر طرف ترقی و عروج کے نئے نئے معیارات قائم ہیں، اس مٹی کا بنا آدم اور آدم کی اسی نسل نے اپنی مٹی سے کیا کچھ بنایا، اسے دیکھ کر عقل حیران و ششدر ہے، شاید ابلیس بھی نہیں جانتا ہو گا کہ قیامت آتے آتے ان ننگے بدن والوں کے اندر اتنا عروج آجائے گا؛ کہ دنیا کی رونق انہیں کے بل بوتے قرار پائے گی، اور اس کی بزرگی کی سند کے ساتھ ساتھ اس کا ہر تمغہ امتیاز بھی چھن جائے گا، وہ ذلیل و خوار ہوتا جائے گا، اور مٹی کا مجموعہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا جائے گا، سچ کہا جائے تو وہ سوچتا ہوگا کہ اس عریاں بدن والے نے علم کے مجسم کے چھکے چھڑا دیے، اسے گھٹنوں پر لا کھڑا کیا اور رب کریم کی نگاہ کا نور نظر بن گیا، وہ رشک بھی کرتا ہوگا، عش__ عش بھی کرتا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے انسان مٹی پر بسایا گیا تب سے ہی اسے مٹی سے خاص لگاو رہا ہے، ویسے بھی ہر کسی کو اپنے خمیر سے عجب کشش محسوس ہوتی یے، چنانچہ اس مٹی کی تخلیق نے ابلیس کی کمر توڑ دینے کے بعد اس مٹی کو ہی اپنا یار اور دوست بنایا، بھلے ہی اسباب کچھ بھی ہوں؛ لیکن شاید ایسا لگتا ہے کہ قضاء الہی کے ساتھ وہی مقناطیسی صلاحیت تھی جو ایک مٹی کے پتلے کو مٹی کی طرف کھنچ لایا، اسباب جو بھی ہوں، اس پر کتابوں کا انبار ہے؛ لیکن اس سے بھی انکار دشوار ہے کہ مٹی کی صحبت، اس کی خوشبو، اس کی قربت اور محبت ہی نے اسے اپنی آغوش میں بھر لیا، انسان بھی اسی سے جڑا رہا، اسی کے حسن پر فریفتہ اور اسی کی نگاہوں کا نور بنا رہا، اس مٹی سے اس کے لگاو کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے! کہ اس سے جنابت میں پاکی حاصل کر لیتا ہے، اپنی کثافت اور آلودگی کو دفع کر لیتا ہے، بلکہ مٹی ہاتھ اور منہ پر مل کر خدا کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے، تو خدا اس پر فریفتہ ہوجاتا ہے، اس سے راضی ہوجاتا ہے، خوش ہو کر وہ کہتا ہے، مانگ کیا مانگتا ہے، بول کیا چاہتا ہے؟
یاد کیجیے! ایسے ہی ہاتھ سے جب خدا کے ایک بندے نے چند کنکریاں اٹھا کر باطل کی فوج پر پھینکیں تو تاریخ کا عظیم الشان فیصلہ ہوگیا، اور خدا بول اٹھا؛ کہ”مارمیت اذ رمیت ولکن الله رمی” تم نے کنکریاں نہیں پھینکیں بلکہ الله نے پھینکیں(انفال:۱۷)، ہجرت کا بھی وہ لمحہ یاد کیجیے! خدا تعالی کے حکم سے جب باطل کی تمام سازشوں پر مٹی ڈالتے ہوئے، مٹی چھڑکتے ہوئے دشمنوں کے بیچ سے تشریف لے گئے تھے، اور پورا کا پورا جتھہ مٹی کے سحر سے مسحور تھا، یہی مٹی کا ڈھیر ہے، جس کیلئے فرشتے بھی زمین کا بوسہ لینے آئے، رسول امین کی چوکھٹ پر جبریل امین کا قدم پڑا، اور اس مٹی سے جڑ کر انہیں بھی انسیت اور محبت کی خوشبو آئی، سچ جانیے! آج بھی دنیا میں خواہ شکوہ و شکایتوں کا ڈھیر ہو؛ لیکن یہی وہ مٹی ہے جس کی خوشبو پر ہر کوئی جمع ہوجاتا ہے، یہ انسان کی اصل ہے، اس کی گھر واپسی ہے، اس کی روح کا مسکن اور قرار کا مقام ہے، اس کا دائمی آرامگاہ ہے، مقام قرار و سکون ہے۔
19/09/2019

Comments are closed.