صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سچی محبت اہل ایمان کاقیمتی سرمایہ، سوشل میڈیاپرعظمت صحابہ اورمدح صحابہ کی تحریک قابل تحسین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر :سرفرازاحمد ملی القاسمی حیدرآباد

قرآن کریم میں مومنین کی جتنی صفات،خصوصیات اوراخلاق بیان کئےگئے ہیں اورانکے لئے جتنی بھی عظمتیں اوربشارتیں ذکرکی گئی ہیں وہ تمام کی تمام خصوصیات وصفات سب سے پہلے صحابہؓ کےلئے ثابت ہونگی بعد میں کسی اورکےلئے،اگر قرآن یہ کہتاہے کہ مومن سچے ہیں،نیکوکارہیں، اللہ انکے ساتھ ہے، مومنوں کےلئے اجرعظیم ہے،اجرکبیرہے، مومنوں کےلئے مغفرت ہے،بشارت ہے جنت ہے،ہدایت ہے،راحت ہے، عزت ہے وغیرہ وغیرہ توسب سے پہلے یہ بشارتیں اورعلامتیں صحابہ کےلئے ثابت ہونگی پھر کسی اورکےلئے، کیونکہ سب سے پہلے صحابہ مومن ہیں، باقی سب بعد میں مومن ہیں،بڑے سے بڑاعابد،زاہد،محدث،مفسر،عالم، مجاھد اورقطب ابدال وغیرہ سب صحابہ کے بعد ہیں، پہلے صحابہ ہیں،اسی لئے علماء نے لکھاہے کہ ان مقدس جماعتوں کاتذکرہ،اورانکاتذکرہ برکتوں کےنزول کاذریعہ ہے،ان سے سچی محبت اہل ایمان کاقیمتی سرمایہ ہے، اوران سے بغض وعداوت کافروں کاشیوہ ہے،انکے واقعات اورانکے تذکرے سے ایمان میں اضافہ ہوتاہے،اورقربانی کے جذبات انگڑائیاں لیتےہیں،صحابہ کی قربانیوں کےصدقے ہمیں سنت رسولؐ ملی،اطاعت رسول ملی،غلامی رسول ملی،ایمان ملا،رحمان ملا، قرآن ملا،فرائض وعبادات ملے،زندگی کامنشور ملا، معاشرت،معیشت اورسیاسی دستورملا،(ندائے منبرومحراب)صحابہ کرام کے درمیان اگرچہ فرق مراتب ہے جسکاذکر قرآن کریم میں بھی ان الفاظ میں ہے جسکامفہوم یہ ہےکہ”فتح مکہ سے قبل اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے والےاورجہاد کرنےوالوں کامقام فتح مکہ کےبعد مال خرچ کرنے والوں اورجہاد کرنے والوں سے بلندو برتر ہے،لیکن تمام صحابہ کرام سے اچھے انجام کاوعدہ ہے”شرف صحابیت میں باہم سب شریک ہیں،اوریہ ایسا شرف ہے جسکو کوئی بھی غیرصحابی اوربڑے سے بڑاولی بھی حاصل نہیں کرسکتا،امت مسلمہ کااس پراجماع ہے کہ کوئی بھی غیرصحابی خواہ کتناہی بلند مقام کیوں نہ ہو، کسی ادنی صحابی کے مقام کوہر گز نہیں پہونچ سکتا،(فتح الباری)شریعت کی اصلاح میں صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی ہو،یااسے آپ ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی ہو،خواہ ایک لمحہ کےلئے ہی کیوں نہ ہو،اسی لئے قرآن کریم اوراحادیث نبویؐ میں صحابہ کرام کے فضائل ومناقب بہت کثرت کے ساتھ بیان فرمائے گئےہیں،ایک جگہ قرآن میں ہے کہ”انکے ساتھی کافروں پربہت سخت ہیں،آپس میں مہربان ہیں،تم انکورکوع اورسجدے میں دیکھوگے،وہ اللہ کےفضل اوراسکی رضامندی کی جستجو میں لگے ہیں،سجدوں کااثر انکے چہروں پرنمایاں ہے،یہی شان انکی توریت اورانجیل میں بھی مذکور ہے”(سورہ فتح)ایک دوسری جگہ ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے اپنے اوران مہاجرین وانصار کی توبہ قبول فرمائی جنھوں نے تنگی کے وقت میں اپنے نبی کی پیروی کی،بعد اسکے کہ قریب تھاکہ ان میں سے ایک فریق کےدل کج ہوجائیں،پھراللہ نے انکو معاف کردیا،بلاشبہ وہ ان پرمہربان اوررحم کرنےوالا ہے”بعض دریدہ دہن لوگ بڑی جرات سے کہتے ہیں کہ صحابہ آپس میں خلافت کےلئے اورعہدوں کےلئے لڑتے تھے،مگرآپ سوچ سکتے ہیں کہ جنکی تربیت محمد عربیﷺ نے اس انداز سے فرمائی تھی کہ وہ خود بھوکے اورپیاسے رہ کر دوسروں کوکھلاتے اورپلاتے تھے،وہ عہدوں کی خاطر کیونکر لڑسکتے ہیں؟ صحابہ کرامؓ خلافت کو ایک مقدس امانت اوربہت بڑی ذمہ داری سمجھتے تھے،ان میں سے کوئی بھی امارت و حکومت کی خواہش نہیں رکھتاتھا،خلافت ملنے کے بعد انھوں نے جس طرح سے اسے نبھایا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے،بات دراصل یہ ہے کہ بعض دنیاپرست اورہوس کے پجاری لوگ صحابہ کرامؓ کو اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم عہدوں کی خاطر لڑتے ہیں، صحابہؓ بھی نعوذباللہ لڑتے ہونگے اوریہ کہ جیسے ہم عہدے حاصل کرنے کےبعد مزے کرتے ہیں، صحابہ بھی ایسے ہی کرتے ہونگے،حالانکہ خلفائے راشدین کے دورخلافت کی زندگی کوہم اپنے سامنے رکھیں تو صاف نظرآتاہے کہ ایک مزدور کی زندگی بھیان سے زیادہ مزے میں گذرتی ہوگی،یہ بات بالکل غلط ہے،ضرورت ہے کہ ہم صحابہ کرامؓ کی سیرت کو پڑھیں اوراسکوعام کریں تو معلوم ہوگاکہ صحابہ کون تھے، ان کامقام کیاتھا؟انکی سیرت کیسی تھی؟انکاکردار کیسا تھا؟انکی راتیں کیسے گذرتی تھیں؟انکے دن کیسے بسر ہوتے تھے؟انھوں نے دین کی خاطر کیاکیاقربانیاں پیش کیں؟انھیں کیسے کیسےمظالم اورمشکلات کاسامناکرناپڑا؟وہ غلامی رسول ﷺ میں کتنے پکےاورسچے تھے؟انکے یقین کاکیاعالم تھا؟انکی عبادت کیسی بےمثال تھی؟انکے معاملات کیسے صاف ہوتےتھے؟انکےاندر ایثاروفیاضی کاکتناجذبہ تھا؟اورپھر انھوں نے خلافت کیسے نبھائی؟ وغیرہ،اتنے سارے مراحل سے گذرنے کےبعد قرآن نے سرٹیفکیٹ جاری کیاکہ”اللہ تعالی ان لوگوں سے راضی ہے اوروہ لوگ بھی اللہ سے راضی ہیں”اور رسول اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا”میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،اللہ سے ڈرو،انکو میرے بعد سب وشتم اورطعن وتشنیع کےلئے تختہ مشق نہ بناناجس نے ان سے محبت کی وہ میری وجہ سے محبت کی،اورجس نے ان سے بغض رکھا اس نے میری وجہ سے بغض رکھا،اورجس نے انکو تکلیف پہونچائی،اسنے مجھے تکلیف دی اورجس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہونچائی اورآسکاپورخطرہ ہے کہ ایسے شخص کو دنیاوآخرت میں اللہ تعالیٰ مبتلائے عذاب کردے”(ترمذی)حدیث کامطلب بالکل واضح ہے کہ آنے والی نسلوں کو میرے صحابہ کےبارے میں احتیاط سے کام لیناچاہئے،انکی تکریم وتعظیم اورانکے حقوق کی ادائیگی کالحاظ رکھناچاہئےاورکسی قسم کی بے توقیری انکے بارے میں ہرگز نہ کریں ورنہ دنیوی یااخروی عذاب کاخطرہ ہے،علماء نے لکھاہے کہ یہاں یہ بات ملحوظ رہناچاہئے کہ”صحابیت کےاس شرف میں چھوٹے بڑے تمام صحابہ شامل ہیں،خواہ وہ اپنے زمانہ کفرمیں اسلام اوررسول اکرم ﷺ کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ رہے ہوں،اورا نھوں نے آپ ﷺ اور مسلمانوں کی کتنی ہی مخالفت بلکہ دل آزاری اورایذارسانی کیوں نہ کی ہو، کسی کےخلاف بھی زبان درازی کی اجازت نہیں”(معارف الحدیث)مسلم شریف میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ” میراوجود وبقا میرے صحابہؓ کی حفاظت اورامن وسلامتی کاذریعہ ہے،اورمیرے صحابہ کاوجودمیری امت کے امن وسلامتی کاذریعہ ہے،میرے دنیاسے پردہ فرمانےکےبعد صحابہ پروہ حوادث پیش آئیں گےجن کےبارے میں آگاہ کرچکاہوں،اورصحابہ کے دنیاسے ختم ہوجانےکے بعد پوری امت ان خطرات سے دوچارہوگی،جن سے میں آگاہ کرچکاہوں”امام نووی نے اس حدیث کی شرح کرتےہوئے لکھاہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جن خطرات سے آگاہ فرمایاتھاوہ واقع ہوئے اورآپ ﷺ کے بعد صحابہ کرام ؓ کی جماعت میں اختلاف رائے اوراسکے نتیجےمیں قتل وقتال اورفتنوں کاظہور ہوا،اسی طرح صحابہ کی جماعت کےدنیاسے رخصت ہوجانے کےبعد،بدعات وخرافات کاظہوراوران دینی فتنوں اورحوادث کاوقوع ہواجنکی نشاندہی آپﷺ نے فرمادی تھی،ہم ہزار برس بھی عبادت کرلیں توانکے مقام کونہیں پہونچ سکتے،پہاڑوں کےبرابر صدقہ وخیرات کرلیں تب بھی انکامرتب نہیں پاسکتے،اسلئے حضرت سعیدابن زیدؓ جوعشرہ مبشرہ میں ہیں فرمایاکہ”اللہ کی قسم صحابہ کرام میں سے کسی کارسول اکرم ﷺ کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہوناجس میں اسکاچہرہ غبارآلود ہوجائے،غیرصحابہ سے ہرشخص کی عمربھر کی عبادت وعمل سے افضل ہےاگرچہ اسکوعمرنوحؑ عطاء ہوجائے،اسلئے کسی بھی صحابہ کی شان میں گستاخی کرنا،انکوگالی دینابرے الفاظ سے یادکرنا، طعن وتشنیع کانشانہ بناناامت مسلمہ کے نزیک باالتفاق ناجائزاورحرام ہے اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ چیزیں بڑاجرم ہے اورعذاب الہی کودعوت دینےکاذریعہ بھی،ہرآدمی کواپنے اعمال کی فکرکرنے چاہئے،صحابہ توہدایت یافتہ ہیں اورقیامت تک آنے والی انسانیت کےلئے مشعل راہ بھی، جولوگ صحابہ کے خلاف الزام تراشی اورزبان درازی کرتے ہیں ایسے لوگوں کاسماجی بائیکاٹ ہوناچاہیے،نوجوان علماء کی جانب سے سوشل میڈیاپر عظمت صحابہ اورمدح صحابہ کی تحریک انتہائی قابل تحسین امرہےاورقابل مبارکباد بھی،یہ چیزیں وقت کی اہم ضرورت ہے،دشمن یہ چاہتاہے کہ مسلمانوں کااعتماد صحابہ پرسے ختم کردیاجائے تاکہ پھرقرآن اورشریعت کونشانہ بنایاجاسکے،اللہ تعالیٰ ہم سب کاحشرصحابہ کرام کےساتھ فرمائے،ان سے بےپناہ محبت عطافرمائے،جولوگ عظمت صحابہ اورمدح صحابہ کےعنوان پرکام کررہےہیں اللہ تعالیٰ انکی مدداورنصرت فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برائے رابطہ 8801929100
ای میل [email protected]

Comments are closed.