الیکشن کی گھنٹی بج گئی، کیا مہاراشٹر میں بی جے پی آسانی سے جیت جائے گی؟

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )
الیکشن کمیشن نے گھنٹی بجادی ہے ۔
مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلیوںاور ساتھ ہی ساتھ ملک کی مختلف ریاستوں میں خالی ۶۴ اسمبلی سیٹوں کے لئے انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ الیکشن ۲۱؍ اکتوبر کو ہونگے اور نتائج کا اعلان ۲۴؍ اکتوبر کو کیا جائے گا ۔ اور جو بھی نتیجہ آئے گا وہ اس ملک کے لوگوں ، اس ملک کی اقلیتوں ، جمہوریت ، سیکولر قدروں ، معیشت اور سماجی وتہذیبی رویوں پر پڑنے والے مثبت یا منفی اثرات کا غماز ہوگا، اور یہ بھی دکھادے گا کہ ملک کس طرح کی تبدیلی سے گذررہا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے ۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ یہ الیکشن اس ملک کے لئے اہم ترین ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا ۔
عام طور پر یہ مانا جارہا ہے کہ دونوں ہی ریاستوں میں اور جہاں جہاں بھی ضمنی انتخابات ہونے ہیں وہاں بی جے پی کے لئے راستہ صاف ہے ۔ پر کیا واقعی ایسا ہے ؟ اگر ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کے تناظر میں آنے والے انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو لگتا یہی ہے کہ بی جے پی جیت رہی ہے ۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن کے مقابلے ۲۰۱۹ء میں بی جے پی کو کہیں زیادہ بڑی کامیابی ملی ہے ۔۔۔ وزیراعظم نریندر مودی کا ’ جادو‘ یا باالفاظ دیگر اُن کی ’ مارکیٹنگ‘ ایسی رہی ہے کہ لوگوں نے ’ نوٹ بندی‘ اور ’جی ایس ٹی ‘ کے برے اثرات کو فراموش کرکے زعفرانی اتحاد کے لئے ووٹنگ کی ۔ حالانکہ مودی سرکار نے اپنے پہلے دور میں ان ’ اعلانات‘ پر ، جن کا انتخابی منشور میں وعدہ کیا گیا تھا کوئی عملدرآمد نہیں کیا لیکن پاکستان ، ائراسٹرائیک، نیشنل ازم، ٹرپل طلاق، این آرسی ، گئوکشی ، ماب لنچنگ، اور لوجہاد وگھر واپسی جیسے زہریلے پروپگنڈوں کی کچھ اس طرح سے تشہیر کی گئی ۔۔۔ اور آج بھی کی جارہی ہے ۔۔۔ کہ ملک کے لوگوں کی بڑی تعداد نے مہنگائی کی مار جھیل کر اور تمام مسائل کو طاق پر رکھ کر بی جے پی کے لئے ووٹنگ کی ، ساتھ ہی ان کے ذہنوں میں یہ زہر بھی انڈیلا گیا کہ اگر بی جے پی پھر سے آگئی اور مودی دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو ۱۹۲۴ء تک جمہوری بھارت ایک ’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل ہوجائے گا ، اور یہی وہ پروپگنڈہ ہے جو اس الیکشن میں بھی ’ سکّہ رائج الوقت‘ کی طرح استعمال کیا جائے گا ۔۔۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک طرح سے جمہوریت اور ہندوتوا کا مقابلہ ہوگا ۔۔۔ بی جے پی اگر کامیاب ہوئی تو اسے مرکزمیںاپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے مضبوط سہارا مل جائے گا اور ان دونوں ہی ریاستوں میں اُن عوام واقلیت مخالف منصوبوں کو آگے بڑھانے کا سنہرا موقع فراہم ہوجائے گا جن پر عملدرآمد ہنوز باقی ہے ۔
بی جے پی کے لئے جیت یوں تو آسان نظر آرہی ہے پر اتنی آسان بھی نہیں ہے ۔ مندی نے لوگوں کے ہوش اڑارکھے ہیں ۔ کسانوں کی ناراضگی ہنوز برقرار ہے ۔ کارپوریٹ گھرانوں کو ٹیکس میں راحت تو دی گئی ہے پر عوام کے لئے تو مہنگائی کا عفریت پہلے ہی کی طرح آزاد ہے ۔ آلو، پیاز تک کے دام آسمان چھونے لگے ہیں ۔ بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے۔ فرقہ پرستی ملک بھر میں منھ کھولے گھوم رہی ہے ۔ حقوق انسانی کے کارکنان جیلوں میں ٹھونسے جارہے ہیں ۔ دانشوروں کی پکڑ دھکڑ ہورہی ہے ۔ ای ڈی کا خوف دلاکر سیاست دانوں سے دل بدلی کرائی جارہی ہے ۔ عوامی مسائل بغیر کسی حل کے پڑے ہوئے ہیں ، لوگوں میں غم وغصہ بڑھتا جارہا ہے ۔۔۔ مہاراشٹر اور ہریانہ ان دونوں ہی جگہوں پر حکمراں جماعت بی جے پی کے اندر بھی اختلافات ابھر آئے ہیں ، اگر سٹنگ ممبران اسمبلی کی جگہ انہیں ، جو دوسری سیاسی پارٹیوں سے آئے ہیں ، ٹکٹ دیا گیا تو یہ اختلافات مزید گہرے ہوسکتے ہیں ۔ اتحادی سیاسی جماعتیں الگ اپنے مطالبوں سے حکمراں بی جے پی کو پریشان کئے ہوئے ہیں ۔۔۔ لہٰذا بی جے پی الیکشن بہت آسانی سے جیت جائے یہ کہنا بہت درست نہیں ہے ۔۔۔ ہاں این آرسی اور ’ غیر ملکیوں ‘ کو دربدر کرنے کے نام پر جو زہریلا پروپگنڈہ کیا جائے گا یا کشمیر میں آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کے جو ’ فوائد‘ گنوائے جائیں گے ، ان کے اثرات رائے دہندگان پر یقیناً پڑیں گے اور ممکن ہے کہ ’ حقیقی مسائل‘ کو فراموش کرکے لوگ جذبات میں آکر پھر بی جے پی کو ووٹ دے دیں ، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اپوزیشن لوگوں کی توجہ ’حقیقی مسائل‘ سے ہٹنے نہ دے ۔۔۔۔
مہاراشٹر میں بی جے پی اور شیوسینا کا اتحاد ہے ۔ کبھی شیوسینا ، بی جے پی کے لئے ’ بڑے بھائی‘ کا کردار ادا کرتی تھی لیکن اب یہ رشتہ الٹ گیا ہے ۔ بی جے پی خود کو شیوسینا سے برتر سمجھتی ہے ۔ شیوسینا اور بی جے پی میں انتخابی گٹھ جوڑ تو ہوگا لیکن ادھوٹھاکرے کی لاکھ کوشش کے باوجود شیوسینا کو بی جے پی ۱۴۴ سیٹیں نہیں دے گی ۔ ریاستی اسمبلی میں کل ۲۸۸ سیٹیں ہیں ۔ ابھی کچھ پہلے تک یہ خبر گرم تھی کہ بی جے پی اور شیوسینا میں نصف نصف پر معاملہ طے ہوگیا ہے ، یہ بھی خبر تھی کہ ریاست میں وزیراعلیٰ کی گدّی بھی باری باری دونوں ہی کو ملے گی لیکن اب امیت شاہ اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے صاف صاف کہہ دیا ہیکہ بی جے پی زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑے گی اور شیوسینا کو ۱۲۰ تک سیٹیں دی جائیں گی اور رہی بات وزیراعلیٰ کی تو فڈنویس کے علاوہ کوئی وزیراعلیٰ نہیں ہوگا ۔ شاید بال ٹھاکرے زندہ ہوتے تو وہ بی جے پی کے اس فیصلے کو قبول نہ کرتے پر ادھو ٹھاکرے میں وہ دم نہیں ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ یہ سمجھنے تک سے قاصر ہیں کہ جیسے جیسے وہ ہتھیار ڈال رہے ہیں شیوسینا کا وجود ختم ہورہا ہے ۔ شاید آنے والے کل کو شیوسینا، بی جے پی کے سامنے منھ بھی نہ کھول سکے ۔
۲۰۱۴ء کے اسمبلی الیکشن میں دونوں نے مل کر ۱۸۵ سیٹو ںپر کامیابی حاصل کی تھی ۔ بی جے پی کو ۱۲۲ سیٹوں پر اور شیوسینا کو ۶۳ سیٹو ںپر کامیابی ملی تھی۔ ماضی میں شیوسینا بی جے پی کےمقابلے زیادہ سیٹوں پر کامیاب ہوتی رہی ہے ، پر جیسے جیسے بی جے پی کا گراف بڑھتا گیا ، اور گراف بڑھانے میں ہاتھ شیوسینا کا ہی تھا ، ویسے ویسے شیوسینا کاگراف گھٹتا گیا۔۔۔ اب سیاسی پنڈتوں کا یہ کہنا ہیکہ شیوسینا کو کم سیٹیں دی جائیں گی اور ان سیٹوں پر بھی یہ کوشش کی جائے گی کہ شیوسینا ۶۰ یا ۶۲ سیٹوں سے زیادہ پر نہ جیت سکے۔ اس طرح اس ریاست میں ، جہاں ’ مراٹھی مانس‘ کے نام پر شیوسینا نے اپنی سیاست کو چمکایا ہے ، شیوسینا بے اثر کردی جائے گی ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہیکہ شیوسینا کو اگر اپنا وجود بچانا ہے تو اسے بی جے پی کے چنگل سے بچنا ہوگا ۔ پر شاید یہ ابھی ادھوٹھاکرے کے لئے ممکن نہیں ہے ۔۔۔ کانگریس اور این سی پی میں مفاہمت تو ہوگئی ہے لیکن اس اتحاد کے بہت سارے لیڈران ’ ای ڈی‘ کے پھندے میں آچکے ہیں ، بہت سارے پالا بدل چکے ہیں ، ان دونوں کو بہت سارے نئے چہروں کے ساتھ سامنے آنا ہوگا ۔ ممکن ہے کہ نئے چہرے ’ترپ کا پتّہ‘ ثابت ہوں ۔۔ مگر بات اس وقت تک نہیں جمے گی جب تک کہ یہ دونوں ہی پارٹیاں دیگر چھوٹی سیاسی پارٹیوں سے اتحاد نہ کریں ۔ ڈاکٹر پرکاش امبیڈکر کی ونچت اگھاڑی مشکلات پیدا کرسکتی ہے ۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی کی مجلس اتحاد المسلمین بھی مشکلات کھڑی کرسکتی ہے ۔ کانگریس اور این سی پی کو چاہیئے کہ وہ ان دونوں سے ہرحال میں اتحاد کریں ۔ اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو ونچت اگھاڑی اور ایم آئی ایم کو چاہئے کہ دونوں میں جو اتحاد پہلے ہوا تھا وہ برقرار رکھا جائے ۔۔۔ مسلمانوں اور دلتوں کے لئے یہ الیکشن بڑا ہی اہم ہے ۔۔ دونوں ہی ’ آئین‘ کو بچانے کے لئے سرگرم ہیں ۔ دونوں ہی اعلیٰ ذات کے فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں ۔ لہٰذا دونوں ہی کو چاہئے کہ وہ ’آئین‘ کے دشمنوں کے اور ’ فرقہ پرستوں‘ کے خلاف متحد ہوکر میدان میں اتریں ۔
اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمان ایک ’ سیاسی قوت‘ کے طو رپر ابھریں ۔ کل تک سیکولر لیڈروں کی بات ہوتی تھی پر آج پتہ چل رہا ہے کہ وہی سیکولر لیڈر بی جے پی کے خیمے میں براجمان ہیں ۔۔۔!! مسلمانوں کو اپنی سیاسی حیثیت کو اب منوانا ہوگا اور اس کے لئے ایم آئی ایم اور ونچت اگھاڑی بہترین متبادل ہیں ، مگر اسی صورت میں جب ان میں اتحاد ہو۔۔۔یہ اتحاد سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کی شرکت سے اور کانگریس واین سی پی کی شمولیت سے مضبوط تر ہوسکتا ہے ۔ پر ایسے کسی بھی اتحاد کے لئے ذاتی مفادات کو تج کرنا ہوگا ۔ اور اب جبکہ سارا ملک زعفرانی شکنجے میں ہے ، آئین خطرے میں ہے ، ہر طرح کے ذاتی مفادات کو نظر انداز کرنا ہوگا ۔۔۔ الیکشن کے اعلان کے اس موقع پر راج ٹھاکرے اور ان کی پارٹی ’ نونرمان سینا‘ (منسے) کا ذکر ضروری ہے ۔۔۔ راج ٹھاکرے لوک سبھا الیکشن ۲۰۱۹ء میں مودی کے اور حال تک ای وی ایم کے خلاف کھل کر مہم چلاتے رہے ہیں ، اسی کے نتیجے میں ’ ای ڈی‘ کی چھان بین سے گذر رہے ہیں ۔ انہوں نے سوکے قریب سیٹوں پر لڑنے کا اعلان کیا ہے ۔ کانگریس اور این سی پی کو یہ چاہئے تھا کہ ’ منسے‘ کو اپنے ساتھ جوڑ لیتے پر دونوں ہی نے ’ منسے‘ کو نظرانداز کیا ہے ۔ یہ تو کہا جارہا ہے کہ ’ منسے‘ چند سیٹوں پر ’دوستانہ لڑائی لڑے گی‘ پر اس کا کوئی فائدہ نہ کانگریس کو پہنچے گا ، نہ این سی پی کو نہ ہی دیگر سیکولر پارٹیوں کو ! کیا کانگریس اور این سی پی کے لیڈران ماضی سے کوئی سبق نہیں لیںگے؟ اگر اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں ہے ، اور اگر واقعی یہ دونوں پارٹیاں اوراشوک چوان ، شردپوار اینڈ کمپنی خود کو بدلنے کو تیار نہیں ہیں تو بی جے پی کی ’ جیت‘ میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اور بی جے پی کی ’ جیت‘ کا مطلب ان دونوں ہی پارٹیوں کا ہمیشہ کے لئے صفایا ہوگا ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اس جمہوری ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا ۔۔۔

Comments are closed.