مادی زندگی کا کوئی شعبہ مومن کے دم سے قائم نہیں!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043

سیدی حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے مجموعہ خطبات میں یہ جملہ پڑھنے کے بعد سانسیں تھم سی گئیں، اور نظروں کے سامنے اسلام اور زمانے میں اس کی ضرورت و اہمیت پر کتب خانہ نظر آنے لگا، اس جملہ پر ذرا آپ بھی غور کیجیے!” مادی زندگی کا کوئی شعبہ مومن کے دم سے قائم نہیں "_ اس اقتباس کو پڑھ کر بعض اصحاب فکر یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ یہ کیسی بات کہی گئی ہے؟ یہ دنیا جو مادیت کا مجموعہ ہے، اس کا وجود خود ہی مومنین پر ٹکا ہوا ہے، جس دن کوئی لا إله کا قائل نہ ہوگا اس دن سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلے گا اور قیامت آجائے گی، دنیا فنا ہو جائے گی، سب کا سب نیست و نابود ہوجائے گا، لیکن صحیح معنوں میں بات ایسی نہیں ہے، حضرت مولانا کہ اس جملہ کو یوں سمجھیے؛ کہ اس دنیا میں ایک مومن کی کیا حیثیت ہے؟ اس زاویہ پر غور کرنے کے بعد یہ بات روز روشن کی عیاں ہو جائے گی کہ دنیا خدا کی صنعت، کاریگری اور ہنر مندی کا اعلی نمونہ ہے، یہ خد اکے تعارف کا ذریعہ اور اس کی وحدانیت کا وسیلہ ہے۔
ان میں انسان اس کی پہچان اور اس کی احسن تخلیق کی مثال ہے، پھر ان میں بھی دنیا کی ساری مخلوقات ایک نہج کی زندگی جینے، مرنے اور شب و روز گزارنے کی پابند ہے، سبھی کھاتے ہیں، پیتے ہیں، کماتے ہیں اور دنیا میں ایک خاص مدت گزارنے کے بعد زمین دوز ہوجاتے ہیں؛ ایسے میں دیکھا جائے تو حیوانات، نباتات اور جمادات سے لیکر انسانوں تک میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ بات ضرور ہے کہ انسان کو مکلف بنایا گیا ہے؛ لیکن دنیاوی معاش و معاد کے اعتبار سے کوئی خاص امتیاز نہیں، خود ایک مومن اگر ان کے ہم مثل ہو جائے اور اپنے آپ کو شکم پرستی اور خود غرضی کا آلہ بنا لے، تو وہ دنیا کی دوہری چکی کا ایک حصہ بن جائے گا، اگرچہ قیامت کے دن نیتوں کی بنیاد پر اٹھایا جائے اور ایمان و اقدار پر امتیاز دیدیا جائے؛ لیکن دنیاوی پیمانے پر کوئی فرق گرداننا دشوار ہے، آج دنیا میں ایک بڑی تعداد بلکہ کہا جاسکتا ہے؛ کہ اکثریت خدا کے احکام سے دور ہے، وہ کلمہ لا الہ کا بھی اقرار نہیں کرتے، تو کیا ان کی زندگی زندگی نہیں ہے، انہیں ترقی و عروج سے کسی نے روکا ہے، یا غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہی اب سب سے زیادہ ترقی یافتہ شمار کئے جاتے ہیں۔
دراصل ان سب کے درمیان ایک مومن کا امتیاز یہ ہے کہ وہ صاحب دل ہے، شکم پروری اور مادہ پرستی سے وہ دور ہے، وہ انسانوں کا مداوا اور غم کے ماروں کا سہارا ہے، وہ دنیا میں انبیاء و رسل کے چراغ کو تھامے ہوا ہے، اندھیروں کو چیرنے اور روشنی عام کرنے کا محرک ہے، اس کے ذریعے دنیا کی نفرتوں میں محبت کا پیغام پھیلتا ہے، وہ ناامیدی میں امید اور صحرا میں شبنم ہے، وہ چشمہ حیواں ہے، جس سے انسانیت سیراب ہوتی ہے، اس کے ذریعے روح کی غذا پہونچتی ہے، انسان مادیت سے نکل کر خود کی حیثیت کو پہچانتا ہے، اس کیلئے صرف دنیا کی مصنوعات کا ایجاد کردینا اور آسائش کا بند و بست کر لینا ہی زندگی نہیں ہے؛ بلکہ قوت لا یموت کے ساتھ انسان کو انسان بنانا اور اس کا رشتہ اس کے خالق سے جوڑ کر اسے محبت و انسیت کا پیمبر بنا دینا اصل ہے، جس مومن کے اندر دل نہ ہو اور جو دوسروں کا درد اور ان کا کرب نہ سمجھے، انسانیت کی فلاح و فوز کی فکر نہ کرے، صحیح معنوں میں وہ پتھر کی سل اپنے سینہ میں دبائے ہوا ہے، اور وہ مادی زندگی کا ایک حصہ بن کر رہ گیا ہے، اور اگر واقعی ایسا ہے تو اسے پھر سے اس جملہ کو پڑھ لینا چاہیے اور اپنی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے:”مادی زندگی کا کوئی شعبہ مومن کے دم سے قائم نہیں”۔

26/09/2019

Comments are closed.