جو اپنے اعمال میں کوتاہ ہوگیا ہو!!!

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات میں انسانی نفسیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے، چونکہ آپ کا قول و فعل آسمانی ہے، آپ کی باتیں خدا عز وجل کی سکھائی ہوئی ہیں، جو انسانوں کے دلوں کو اور اس کے اندر پائے جانے والے فسادات کو خوب اچھی طرح جانتا ہے، اس کی کمزوریوں اور خوبیوں سے بخوبی واقف ہے، ان ہی کمزوریوں میں سے ایک سخت کمزوری اور نفس کی بیماری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، بالخصوص عصر حاضر میں اس روایت کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، ذرا غور سے پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من بطأ به عمله لم يسرع به نسبه (مسلم:۲۶۹۹) اس روایت کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے فقہ شافعی کے عظیم فرزند اور محدث امام نووی نے شرح مسلم میں یوں رقمطراز ہیں: ” من كان عمله ناقصا لم يلحقه بمرتبة أصحاب الأعمال. فينبغي أن لا يتكل على شرف النسب. وفضيلة الآباء. ويقصر في العمل” _____ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے اعمال میں پیچھے رہ گیا، جس نے اپنی زندگی میں نیک اعمال نہ کئے، ترقی و ترویج کی جانب قدم نہ بڑھایا اور صرف اپنے آباء و اجداد کی کمائی ہوئی عزت و دولت پر اعتماد کیے رہ گیا، اس نے یہ سمجھ لیا کہ اس کے اجداد کی برتری و فصیلت ہی اس کیلئے سب کچھ ہوجائے گی، اسے خود دائرہ عمل میں آنے اور خود کو تکانے کی ضرورت نہیں، چنانچہ وہ یونہی گزشتہ پر حال کو ترجیح دیتا ہو، اور یہ سمجھ بیٹھا ہو کہ ماضی کے قالب میں زندگی گزار لے گا_ تو یہ جان لے! کہ وہ نادانی و بے وقوفی میں ہے، وہ بہت جلد خود کو رسوائی کے گڑھے میں گرانے والا ہے، بہت جلد اپنے اشراف کو بھی ذلیلی کر کے کسی گمنامی کے سمندر میں ڈوب جانے والا ہے، اس کا قصہ بھی ختم ہوجائے گا، اس کا ماضی کیا باقی رہے گا؛ بلکہ مستقبل بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
اس روایت کو ایک بار پھر سے پڑھیے اور بغور پڑھیے اس کے بعد سوچیے! کہ زمانہ حاضر میں مسلمانوں کے دگر گوں حالات کا ذامہ دار کون ہے؟ آپ کی فکر یقینا اس بات کی طرف رہنمائی کرے گی کہ ہماری وہ بے وقوفی ہے جو ہم صدیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں، اپنے اسلاف کا نام تسبیح کے دانوں کی طرح شمار کرتے ہیں؛ لیکن اپنے اعمال کی سیاہ کاری پر کوئی نظر نہیں ہوتی، ہم میں سے جو کوئی کسی اعلی خاندان سے یا نسبت سے تعلق رکھتا ہے__ وہ بس یہی چاہتا ہے کہ ایک نکمی جان نشین بن کر یونہی ان کے نام پر سوداگری کرتا جائے، اپنے آپ کو اعمال و کردار عالی سے دور کردیے، اور وقت و حالات کے آگے سرنگو ہو کر وقت کے فرعون کو سلام کیا جائے، مصلحت کے نام پر بزدلی اور قیادت کے نام پر بے پرواہی اور غیر سیاسی فکر اور مادیت و شکم سیری کی پالیسی اپناتے ہوئے سب کو اور سب کچھ کو قربان کیا جائے؛ لیکن پھر بھی یہ امید کی جائے کہ ہماری حالت درست ہوجائے گی، اور ہماری عزت یونہی بحال رہے گی، خاص طور پر ملک عزیز کے بہت سے اعلی صفوں میں براجمان حضرات کی یہی سچائی ہے، اگر ان کے کردار و سمجھ پر انہیں تولا جائے، تو وہ صفر سے زیادہ نہ نکلیں گے؛ لیکن ان کے اسلاف کا سر پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہے، بس یہی وجہ ہے کہ اب ان کا پیٹ وزن دار ہے اور کردار کھوکھلا ہے، وہ بے وزن ہوگئے ہیں، بلکہ اس امت کیلئے ناسور ہوگئے ہیں، نہ خود کچھ کرتے ہیں اور ناہی کسی دوسری قیادت کو پنپنے دیتے ہیں_ اس موقع پر علامہ شبلی کا یہ جملہ یاد آتا ہے؛ کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے کیا کیا اگر ہم نے کچھ نہ کیا_ وقت ہے ہوش کے ناخن لئے جائیں، قبل اس کے کہ دوسروں کے ناخن ہمیں نوچ ڈالیں_

25/09/2019

Comments are closed.