گمان، تجسس اور غیبت کا خطرناک مثلث

ڈاکٹر سلیم خان
للن شیخ نے کلن خان سے کہا یار یہ اپنے امام صاحب جو ہیں نہ بڑے سست آدمی ہیں ۔
کلن بولا یہ تمہیں کیسے پتہ چلا میں نے تو انہیں جماعت کی اقامت میں کبھی ایک منٹ کی تاخیر بھی کرتے نہیں دیکھا ۔
للن بولا ارے بھائی نماز کا معاملہ مختلف ہے ۔
کیوں ؟ اس میں کیا اختلاف ہے؟
للن نے ناراض ہوکر کہا تم میرے منہ میں اپنے الفاظ نہ ڈالو ۔ میں نے اختلاف نہیں مختلف کہا ہے ۔
ہاں ہاں ایک ہی بات ہے۔ سننے میں تو دونوں یکساں ہی لگتے ہیں ۔
لگتے ہوں گے لیکن تم نے نہیں سنا کہ چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا ۔
کلن نے پھر پوچھا تو کیا سونا چمکتا نہیں ہے؟
کیوں نہیں اصل چمک تو سونے کی ہی ہے جو کبھی نہیں جاتی ۔ باقی دھاتوں کا تو یہ ہے کہ کچھ دن چمکے اور پھر ماند پڑ گئے۔ ہمارے سیاسی رہنما وں کی طرح!
اچھا تو تم اختلاف اور مختلف کا فرق بتاتے بتاتے سیاست کی طرف نکل گئے ۔
دیکھو اختلافات کے سبب لڑائی جھگڑا ہوتا ہے لیکن مختلف ہونے باعث نہیں ہوتا ۔ہم مختلف ہونے کے باوجود دوست ہیں لیکن امام صاحب والا اختلاف ہمیں دشمن بنا سکتا ہے۔
کلن نے کہا ایسی بات نہیں میرا یہ مطلب تھا کہ اگر امام صاحب نماز میں تاخیر کریں تو ان کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ کوئی اور امامت کرلے گا ۔
یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن اس میں امام صاحب کا کیا نقصان ہے ؟
ارے بھائی ایسا بار بار ہونے لگے تو ان کی ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی لوگ ان کو ہٹا کر آگے بڑھنے والوں میں سے کسی کو امام بنا لیں گے ۔
للن بولا ،اچھا کیا یہ اتنا آسان ہے؟ اگر تمہیں امام بنالیا جائے تو کیا تم اپنا دھندہ کاروبار چھوڑ کر امامت کی ذمہ داری سنبھال لو گے ؟
کیوں نہیں اس میں کرنا بھی کیا ہے؟ پانچ وقت کی نماز ہےجس پڑھانے میں جملہ ایک گھنٹہ بھی نہیں لگتا۔ باقی ۲۳ گھنٹے آرام ہی آرام ۔
اچھا ! لیکن پابندی کے ساتھ ہر روز پانچ مرتبہ ک وقت پر اہتمام تم سے ہوسکے گا ؟اور پھر تمہارے تجارتی دوروں کا کیا ہوگا؟ کبھی کوئی گاہک آگیا ، کوئی بیمار ہوگیا وغیرہ وغیرہ ۔
للن نے کہا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ اس صورتحال میں کوئی اور پڑھا لے گا ۔
اور پھر اسے امام بنا دیا جائے گاکلن نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور سنو مکتب میں بچوں کو پڑھانا، مسجد کی دیکھ ریکھ اور عملہ کی نگرانی وغیرہ ، کیا یہ سب تمہارے بس کا روگ ہے؟
بھائی یہ سب تو مشکل لگتا ہے لیکن میں نے انہیں سست اس لیے کہا کہ سلام پھیرنے کے بہت دیر بعد وہ اجتماعی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔
وہ تو ایسا اس لیے کرتے ہیں تا کہ ہم جیسے سست لوگ اپنی چھوٹی ہوئی باقیماندہ رکعتیں پوری کرکے دعا میں شریک ہوسکیں ۔
کلن ناراض ہوکر بولا یار تم تو ان کے بڑے حمایتی نکلے ، خود ہمیں کو کاہل قرار دے دیا ۔ اچھا یہ بتاو کہ وہ نماز کے بعد درس شروع کرنے میں تاخیر کیوں کرتےہیں ؟
للن نے جواب دیا تاکہ ہم جیسے جلدباز مسجد سے نکل جائیں ۔
اچھا اس میں ان کا کیا فائدہ ہے؟
ارے بھائی اچھا نہیں لگتا کہ وہ اللہ کی کتاب پڑھیں اور لوگ پیٹھ پھیرکر جائیں۔ اس لیے جانے والوں کے نکل جانے کے بعد درس قرآن شروع کرتےہیں ۔ ویسے کل انہوں نے اس آیت کا درس دیا تھا’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔
کلن نے کہا یہ تو تم مجھ پر طنز کررہے ہو ۔ انہیں کیسے پتہ چل گیا کہ میں ان کے بارے یہ سب سوچتا ہوں ؟
ارے بھائی قرآن مجید کی یہ آیات صرف تمہارے متعلق تھوڑی نا ہیں ۔ یہ تو ہم سب کی رہنمائی کرتی ہیں اور سوال بھی کرتی ہیں کہ ’ پھر کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے؟ ‘۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.