خوف کے سائے میں الیکشن: تو کیا اب کی بار مہاراشٹر اسمبلی میں کوئی مسلمان نہیں پہنچے گا؟

شکیل رشید
آزمائش کی ایک اور گھڑی سرپر آپہنچی ہے ۔
مہاراشٹر میں اسمبلی چناؤ کےلئے تاریخ کے اعلان کے بعد نوٹی فیکشن جاری ہوچکا ہے ۔ یہ چناؤ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب سارے ملک پر خوف کا ماحول طاری ہے ، بڑے بڑے لیڈر جیلوں میں یا تو بند ہیں یا سرکاری دفاتر کے چکّر لگانے پر مجبور ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے خوف وہراس کے ماحول میں اپوزیشن پارٹیاں ڈٹ کر میدان میں اترسکیں گی؟ کیا کھل کر چناؤ لڑسکیں گی ؟ خوف ودہشت کا ماحول کتنا شدید ہے اس کا اندازہ کشمیر کی مثال سے ہوسکتا ہے جہاں عوام کو اعتماد میں لئے بغیر آرٹیکل 370 کی منسوخی ہوچکی ہے ۔ کشمیر ایک ایسا موضوع ہے جہاں ایمانداری سے حالات کا مشاہدہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کوئی بھی کشمیری پاکستان کا رخ کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ کشمیریوں کو اندازہ ہے کہ پاکستان میں حالات اتنے ابتر ہیں کہ ہندوستان میں وہ جو سکون کی زندگی گذارسکتے ہیں وہاں ممکن نہیں ہے ۔ جہاں تک آرٹیکل 370 کا تعلق ہے اس میں کسی بھی شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ کشمیر کو ہندوستان کا مکمل حصہ بنادیا جاتا ہے تو اس سے کشمیری عوام کو بے پناہ فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ بڑے بڑے سرمایہ دار جنت کی اس وادی کا رخ کرسکتے ہیں اور جب سرمایہ کاری بڑھے گی تو مقامی آبادی کو ملازمتوں کے شاندار مواقع بھی میسر آسکیں گے ، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آج کشمیریوں کو اپنی سرزمین پر فوج کی موجودگی سے جن حالات سے گذرنا پڑتا ہے ان حالات کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ اور سارا نظام مقامی حکومت کے ہاتھوں میں ہوگا ۔ لیکن بی جے پی کی مرکزی سرکار نے کشمیریوں کو اعتماد میں لئے بغیر آرٹیکل 370 ہٹانے میں من مانی کی اور طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ اس نے عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی ۔
کشمیریوں سے مل کر ، ان کی قیادت سے بات کرکے اگر انہیں یہ یقین دلایا جاتا کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد نہ ’کشمیریت‘ خطرے میں آئے گی نہ کشمیری شناخت اور تہذیب اور نہ ہی کشمیریوں پر کوئی زبان تھوپی جائے گی ، تو شاید آج کشمیر جن حالات سے گذر رہا ہے نہ گذرتا ۔ مگر سارے کشمیر کو خوف ودہشت میں مبتلا کرکے طاقت کے زور پر وہاں سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیاگیا اور کشمیری خود کو ’ ٹھگا‘ ہوا محسوس کرتے رہ گئے ۔ یہ خوف اور دہشت کا ماحول اگر نہ ہوتا تو من مانی کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے خلاف سارے ملک میں ہنگامے شروع ہوجاتے ، لوگ سڑکوں پر اتر آتے ، وہ سیاسی پارٹیاں اور وہ سیاست داں جو بی جے پی کی مرکزی سرکار کی ’ ہندوتوادی‘ پالیسیوں کے مخالف ہیں مظاہرے کرتے ۔ لیکن مرکز کی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرکارنے ملک بھر میں جو دہشت کی فضا قائم کررکھی ہے اس نے ساری سیاسی پارٹیوں اور سارے سیاست دانوں کو جمہوری مظاہروں تک سے روک رکھا ہے ۔ حکومت کی من مانی کی ایک مثال مزید لے لیں ۔ ۔۔
حال ہی میں حکومت مسلم پرسنل لاء کے خلاف بھی اپنی من مانی میں کامیاب رہی اور طلاقِ ثلاثہ مخالف بل منظور کرواکر اس نے شریعت میں تبدیلی کردی ۔ تقریباً تین دہائی قبل کانگریس کے دورِ حکومت میں شاہ بانو کیس کے سلسلے میں مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کے امکانات پیدا ہوئے تھے ، بلکہ اسے قانونی شکل دینے کی تیاری بھی آخری مراحل میں تھی لیکن چونکہ ملک میں ’جمہوریت زندہ تھی‘ خوف وہراس کا ماحول نہیں تھا، لوگ احتجاج میں سڑکوں پر اتر آئے تھے ، ہجوم نے راستوں کو گھیر لیا تھا ۔ لہٰذا اس وقت کی راجیو گاندھی کی سرکار کو ہتھیار ڈالنے پڑے تھے ۔
آج پارلیمنٹ میں آسانی سے مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کے قانون کو منظور کرلیا گیا لیکن پارلیمنٹ میں اکّا دکّا ممبر کے علاوہ کسی کو اس تبدیلی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ نہ ہی مسلم لیڈر شپ عوام کو سڑکوں پر اتار کر حکومت کو مجبور کرسکی کہ تبدیلی واپس لے کیونکہ مسلم پرسنل لاء میں کسی کو بھی تبدیلی کی اجازت نہیں ہے ۔ قابلِ غور ہے کہ زیادتیاں مسلسل ہورہی ہیں لیکن کوئی بھی لیڈر میدان میں اترنے کو تیار نظر نہیں آتا ۔ اس سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام سے زیادہ لیڈر شپ خوف زدہ ہے ۔ اسے کرسی کھونے کا خوف ہے ۔اسے اپنی بدعنونیوں کے آشکار ہونے کا خوف ہے ، سلاخوں کے پیچھے جانے کا خوف ہے ۔ مسلم قیادت کی بات کی جائے تو ’غائب‘ ہی نظر آتی ہے ۔ مسلم قائدین ، چاہے وہ سیاسی ہوں کہ مذہبی اور مسلم دانشوران صاف صاف ، کھل کر ، ببانگ دہل ’زیادتیوں‘ کے خلاف آوازیں نہیں اٹھارہے ہیں ۔ یہ اسی خوف ودہشت کا نتیجہ ہے جو سارے ملک پر چھائی ہوئی ہے ۔ گذرے ہوئے کل کو آوازیں اٹھانے والے موجود تھے ۔ مذہبی قیادت بھی احتجاج کررہی تھی اور سیاسی قیادت بھی ۔ اب یہ جو خاموشی چھائی ہوئی ہے ، یا یہ جو مسلمانوں کو ’ گائیڈ‘ کرنے سے معذوری ہے ، اس کے بے حد بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ ڈر اور خوف کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی مایوسی بھی پھیل رہی ہے ۔ عام مسلمان خود کو ’لیڈرلیس‘ سمجھنے پر مجبور ہیں ۔ مجھے خوب یاد ہے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک اجلاس سے حضرت مولانا علی میاں ندویؒ نے للکار کر کہا تھا کہ مسلمان شریعت پر کوئی مفاہمت نہیں کرسکتے ۔ پرآج قیادت ’ہر فیصلہ منظور ہوگا‘ کہنے تک پر آمادہ ہوگئی ہے ۔
خیر، بات خوف ودہشت کی فضا اور مہاراشٹر کے اسمبلی الیکشن کی چل رہی تھی۔ جہاں تک سیاست کا معاملہ ہے تو اس حقیقت سے ۔۔۔تلخ ہی سہی ۔۔۔ منھ نہیں موڑا جاسکتا کہ آج بغیر بڑے سرمائے کے سیاسی میدان میں کامیابی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ۔ اور جو بھی سیاسی لیڈر، سیاست کے میدان میں کامیاب ہوتا ہے اس کے لئے یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ مالی اعتبار سے اسقدر مضبوط ہوجائے کہ اپنے ساتھیوں ، گروپ اور اپنی پارٹی کو لے کر آگے بڑھ سکے ۔سرمایے کے حصول کے لئے بدعنوانیاں بھی کی جاتی ہیں ، بلکہ بدعنوانیوں سے ہی بڑا سرمایہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اب یہ بدعنوانیاں سیاست دانوں کے گلے کا پھندا بن رہی ہیں ۔ اس وقت ملک میں بی جے پی کا جوٹولہ برسراقتدار ہے اس نے سیاست کی اس رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور بڑے بڑے نیتاؤں کو جیل کی ہوا کھلانی شروع کردی ہے ۔ ان میں بعض ایسے لیڈر بھی ہیں جن کے خلاف کاروائی تو نہیں ہوئی ہے لیکن انہیں یہ باور کرادیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے زیادہ ہلچل کی اور برسراقتدار جماعت کو نقصان پہنچایا تو اپنے انجام کے لئے تیار رہیں ۔ شاید اسی لئے چناؤ آنے کے باوجود وہ مودی سرکار کے غلط فیصلوں پر آواز اٹھانے والوں میں وہ لیڈرشامل نظر نہیں آتے ۔ ’منسے‘ کے سربراہ راج ٹھاکرے ای ڈی میں پیشی کے بعد سے خاموش ہی ہیں ۔
مہاراشٹر میں شردپوار بھی بی جے پی کی اسی پالیسی کی زد میں آئے ہیں لیکن وہ ایک دھاکڑ اور سمجھ دار لیڈر ہیں انہوں نے حالات کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائےحالات سے لڑنے کا تہیہ کیا ہے نتیجتاً حکومت کو ان کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے ہیں ۔ کوئی معمولی انسان نہیں بلکہ خود ممبئی کے پولس کمشنر ان کی رہائش گاہ تک پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ وہ گرفتاری کے لئے ای ڈی کے دفتر نہ جائیں ۔ یہ شرد پوار کی ایک بڑی جیت ہے۔ انہوں نے ای ڈی کی کارروائی کو مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس پر ہی نہیں مودی اینڈ کمپنی پر بھی الٹ دیا ہے ۔ جس طرح انہوں نے ای ڈی کا سامنا کرنے کا اعلان کیا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ بی جے پی سے دودو ہاتھ کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ ان کے بھتیجے اجیت پوار نے بھی ، جن پر بدعنوانی کے الزام میں معاملہ درج ہوچکا ہے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر یہ جتلادیا ہے کہ وہ بھی بی جے پی سے دودو ہاتھ کرنے کو تیار ہیں ۔ شردپوار مراٹھا لیڈر ہیں ، ان کی مراٹھوں پر پکڑ ہے ، مراٹھوں کو ان سے ہمدردی ہوسکتی ہے لیکن ان کی پارٹی این سی پی کے بہت سارے لیڈر ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کے خیمے میں جاچکے ہیں ۔۔۔ ان سب کو بھی ای ڈی ہی کا خوف تھا ۔۔۔ اب تنہا شردپوار بی جے پی سے مقابلے میں کتنا کامیاب ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے ۔۔۔ اور یہ اندازہ بھی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر میں اسمبلی چناؤ کے نتائج کیا ہونگے ۔ ملک اور ریاست کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس تتر بتر ہوچکی ہے ۔ کچھ لیڈر کانگریس کا دامن چھوڑ کر دوسری پارٹیوں کی طرف دوڑ پڑے ہیں تو کچھ کو اس اہم موڑ پر عہدوں سے ہٹادیا گیا ہے ۔یعنی کہ مہاراشٹر میں کانگریس ایک معمہ بن چکی ہے ، کوئی بھی مضبوط کانگریسی لیڈر میدان میں آگے بڑھتا نظر نہیں آتا ۔ حالات اسقدر ابتر ہوں تو چناؤ کے نتائج کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ اور بات صرف کانگریس ہی میں ابتر ی کی نہیں ہے بلکہ غالباً یہ پہلا موقع ہے جب مسلم علاقوں سے ایک نہیں کئی کئی لیڈر کمرکس کر میدان میں اترنے کو تیار ہیں ، کئی پارٹیاں وجود میں آچکی ہیں اور ہر پارٹی کو ’یقین‘ ہے کہ ان کا ہی امیدوار اس بار اسمبلی پہنچے گا ۔ ہزار پندرہ سو ووٹ بھی حاصل نہ کرنے والے امیدوار یہ باتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ اس بار تو جیت ان کی ہی ہوگی ۔ اس پس منظر میں یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ چند مسلم اراکین اسمبلی جو اس وقت ایوان میں موجود ہیں ان کا بھی جیتنا اب مشکل ہوگیا ہے ۔ یعنی کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس بار مہاراشٹر اسمبلی میں ایک بھی مسلمان نہ پہنچ سکے ۔ شاطر سیاست داں اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے خوف ودہشت کی فضا سے کام لیا جارہا ہے ۔ خوف کے مارے ہوئے سیاست داں مسلم ووٹوں کو تقسیم کروانے کے لئے سرگرم ہوچکے ہیں ۔ اس بار پہلے کے مقابلے مسلم ووٹوں کا انتشار شباب پر ہوسکتا ہے ۔ خدا مسلمانوں کو ، مسلمانوں کی لیڈر شپ کو عقل سلیم عطا کرے اور وہ حالات کا گہرائی سے مشاہدہ کرکے کسی ایسے فیصلے پر پہنچیں کہ یہ منصوبے ناکام ہوجائیں اور گذشتہ اسمبلی کے مقابلے اس بار زیادہ مسلم امیدوار اسمبلی میں پہنچیں ۔ یہ مانا کہ جو مسلم اراکین ،اسمبلی میں ہیں انہوں نے مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے کام نہیں کئے پر کبھی کبھی مسلم مسائل پر آواز تو اٹھائی ہے ۔ اب شاید کوئی آواز اٹھانے والا بھی اسمبلی میں نظر نہیں آئے گا ۔۔۔ شاطر سیاست دانوں کے منصوبے ناکام ہونگے اس کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں ۔

Comments are closed.