کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا؟

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

کشمیر کا مسئلہ وہاں کی سیاست نہیں ہے، معیشت نہیں ہے، ترقی و تنزلی کی شرحیں نہیں ہیں، بلکہ وہاں کا مسئلہ اعتماد کا ہے، بھروسے کا ہے، رعایا کا حکومت پر اور حکومت کا رعایا پر_ آزادی ہند کے بعد سے ہی کشمیر پر طاقت کا زور دکھایا گیا، معاہدے کیے گئے، لیکن ان کی پاسداری نہ کی گئی، مسلم اکثریت ہونے کے باوجود وہاں کی عوام کے ساتھ ہندو اکثریت کا سا سلوک کیا گیا، جنت کو بھی تقسیم کردیا گیا، نعمت خداوندی پر سرحدوں کی لکیریں کھینچ دی گئیں، وہاں کے وسائل و ذرائع اور انسانی حقوق پر شب خون مارا گیا، پاکستان اور ہندوستان کی رسا کشی میں وہاں کی عوام نے علم حریت بلند کیا، نوجوانوں کی جماعتیں بہکیں، خوبصورت سپنے دکھائے گئے، سبز باغ کو سرخ خون سے سینچنے کا دور شروع ہوا، اور پھر انہوں نے اپنوں سے کچھ نہ پایا تو غیروں کی طرف معاونت کی نگاہیں ڈالیں، انہوں نے جیب کے ساتھ ساتھ ہتھیار کے دہانے بھی کھول دئے، بگڑے اور شرارتی بچے کو سوجھ بوجھ کے ساتھ صحیح راہ لگانے کے بجائے ان کے ساتھ زور زبردستی کی گئی، بندوق کی ناک پر کھانا کھلایا گیا۔
ان معصوموں پر قانون کی بالادستی اور خوف کا سایہ ان پر دراز کیا گیا، فوجیں ٹھوس دی گئیں، آبادی میں عام انسان کم اور ہتھیار بند زیادہ نظر آنے لگے، پابندیوں کی کوئی انتہا نہ رہی، معاشرتی زندگی اور معاشی زندگی دونوں متاثر ہوئے، رفتہ رفتہ بچے شرارت کے بجائے فساد کرنے لگے، اپنوں ہی سے بغاوت کر بیٹھے، پتھر بازیاں عام ہوگئیں، کالے جھنڈے اور پڑوسی ممالک کے جھنڈے بھی منظر عام پر آنے لگے، بغاوت کا سلوگن سنائی دینے لگا، اور ایسا لگنے لگا کہ اب اس خطہ پر سیاہی پھیر دی جائے گی، مگر قریب میں وہاں کے بہت سے پتھر باز نوجوانوں کو آزاد کیا گیا؛ یہ کہتے ہوئے کہ خطہ میں اعتماد بحال ہوگا، نظریاتی اختلافات کو باتوں سے اور میز و کرسی پر حل کیا جائے گا، لیکن جب تک تو بہت دیر ہوچکی تھی، پیلٹ گن کی مار نے نہ صرف انہیں اندھا کردیا تھا بلکہ ان کی اندرونی نگاہ بھی چھین لی تھی، زخم دل پر لگ چکا تھا، شدت سر سے دماغ تک سرایت کر چکا تھا، چنانچہ شطرنج کی ہر چال چلی جا چکی تھی اور بڑی کامیابی کے ساتھ ہرمہرا اپنے اپنے مقام تک پہونچایا جا چکا تھا___
اسی درمیان دفعہ ۳۷۰ جو کشمیر کو خاص صوبہ کا مقام دلاتا تھا اور جو ہندوستان اور کشمیر کے درمیان ایک اٹوٹ بندھن تھا، نکاح نامہ تھا، اسے توڑدیا گیا، معاہدے کے ختم ہوتے ہی ظلم کا ایک نیا باب شروع کیا گیا، بلا امتیاز و تمیز پورے خطے کو انسانیت کشی کے دہانے پر کھڑ کردیا گیا، اور پھر گورنر کے ذریعے پریس کانفرنس کی جاتی ہے، جس میں کشمیریوں کو معیشت کا جھانسا دیا گیا، نوکری کی لالچ اور ترقی کا خوبصورت باغ دکھایا گیا، ایک روتے بچے کو کھلونے سے بہلانے اور است خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی؛ لیکن حاصل کچھ نہ ہو سکا_ اب بھی کرفیو جاری ہے۔دراصل حکومت کا یہ فیصلہ محض ضد و عناد کے سوا کچھ نہیں، انہیں ہانگ کانگ سے سبق لینا چاہئے تھا، جہاں چین نے اپنا تسلط جما رکھا ہے، وہاں پر ترقی و تعمیر کی کوئی کمی نہیں ہے، جدید دور کی اول ترین جگہوں میں سے ایک ہے؛ لیکن دقت یہ ہے کہ وہاں کے لوگو کو چین کی پالیسیاں پسند نہیں، انہیں چین کی سیاست پر اعتماد نہیں_ یہی وجہ ہے کہ آئے دن وہاں بغاوت ہوتی رہتی ہے، ایک الگ ملک کی کوشش جاری ہے_
کشمیر کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیر ہمارا ہے لیکن کشمیری ہمارے ہیں، ان کا غم ہمارا غم ہے، ان کی دقتیں ہماری دقتیں ہے، اور وہ بھی ہندوستان کی عین آبادی ہیں اور ہندوستانی ہیں___ یہ کبھی نہیں کہتے! حکومت ان کے ساتھ غنڈے اور موالیوں کے جیسا رویہ رکھتی ہے، فوج ان سے نفرت کرتے ہیں، انہیں کشمیری ہونے اور خاص طور سے مسلمان ہونے کی سزا دیتے ہیں، سبھوں کو یاد ہوگا کہ انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے ایک عام شہری کو (اگرچہ کہ وہ پتھر باز تھا) سواری کے سامنے باندھ کر مارشل کیا گیا تھا، اور عوام کے دلوں میں ہیبت ڈالنے کیلئے انسانیت کی بے حرمتی بھی گوارا کی گئی تھی، اس کے علاوہ بھی فوج کی جارحیت عام ہے، صنف نازک سے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں صاعقہ فاجعہ بن گرتی ہی رہتی ہیں، سفید دوپٹوں کو سرخی میں بدلنے کا مکروہ کھیل نظر آتا ہی رہتا ہے، بجا ہے کہ کہا جائے: "وہاں کے پتھر بازوں سے دہشتگردوں کا سا معاملہ ہوتا ہے”، لوگوں کے ساتھ دوہرا سلوک ہوتا ہے___ اگر نام نہاد دانشوران یہ سمجھتے ہیں کہ دفعہ ۳۷۰ ہٹانے سے معاملہ ختم ہوجائے گا، تو یہ بڑی بھول ہے، جب تک اعتماد بحال نہ ہوگا تب تک یہ دفعہ رہے یا نہ رہے کوئی فرق نہیں پڑتا_

28/09/2019

Comments are closed.