ترجیحات کا ادراک

فیروز عالم ندوی
معاون ایڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ ، چنئی
قوموں کی زندگی میں درست ترجیحات کے تعین کا اہم رول ہوتا ہے، جو قوم ناقص حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے درست ترجیحات کا تعین نہیں کرپاتی ہے وہ ناکام و نامراد ہوجاتی ہے اور تمام وسائل مہیا رہنے کے باوجود تنزل و انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف جو قوم سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرتی ہے، جامع اصلاحات کو اپناتی ہے اور درست ترجیحات کا صحیح تعین کرتی ہے تو ذہنی سکون، قلبی طمانیت، روحانی تسکین اس کا مقدر بن جاتا ہے اورمعیارِ زندگی از خود بلند ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو درست ترجیحات کا تعین کرنا انسانی زندگی کا ایک انتہائی اہم اور دشوار کن مرحلہ ہے جس کو پورا کرنے میں بعض لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور بعض ناکام، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انھیں کسی بھی درجے میں اس کا شعور ہی نہیں ہوتا ہے۔
ملی اور انفرادی زندگیوں میں اضطراری صورت حال کا پیش آنا عین ممکن ہے ، مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ حالت دائمی ہو۔ یہ قلیل میعادی ہوتی ہے اور اس کے لیے کچھ مخصوص اقدام کئے جاتے ہیں جو اس وقت کے ساتھ خاص ہوتے ہیں ۔ ترجیحات کا درست تعین اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ دونوں طرح کی حالات کے مطالبات کو سمجھا جائے اور اسی اعتبار سے عمل کیا جائے۔
زیر نظر مضمون میں سرسری طور پر چند مثالوں کو پیش کر کے یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ ترجیحات کی تعیین میں ہم نے کہاں کہاں دانستہ اور نادانستہ غلطیاں کی ہیں۔
قوم کی ذہنی تربیت کا کام، نئی نسل کو درست سمت میں موڑنے کا خاکہ ، ان کی اکثریت کو متحدہ طور سے آگے بڑھانے کا عمل اور ان کے فکر و نظر کو پختگی بخشنے کا طریقہ ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو دیار ہند میں ہمارے ملی ترجیحات میں سب سے بلند اور اہم مقام رکھتی ہیں ۔ لیکن یہاں بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ قوم کو ہمیشہ اضطراری حالت میں ہونے کا احساس دلایا گیا اور طویل میعادی دور رس نتائج کے حامل کاموں سے ہٹ کر غیر ضروری اور بے نتیجہ کاموں میں لوگوں کو الجھائے رکھا گیا۔ کاموں کا تعین حالات کے تقاضوں اور مستقبل کے مطالبات سے قطع نظر تاجرانہ اسلاف پرستی کی بنیاد پر کیا گیا۔
دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والے مسلمانوں کی بقاء کے لیے ان کے اندر اسلامی شناخت اور دینی حمیت کا ہونا ضروری ہے ۔ اس بنیادی فکر کے مطابق برطانوی سامراج کے قیام کے بعد خاص نوعیت کی مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع کیا گیا اور وہ ہنوز اسی انداز میں جاری ہے ۔ دینی درسگاہوں میں جانے والے طلبہ کی تعداد مسلم آبادی کا دو سے تین فیصد ہوتی ہے، دوسری جانب ہم نے تعلیم کی دینی اور دنیوی تقسیم کر کے فکری طور سے ملت کو دو ایسے دھروں میں تقسیم کر دیا جو ایک دوسرے کو بہت کم لائق التفات سمجھتے ہیں ۔ ان سب کے درمیان ملت کا ایک ایسا بڑا طبقہ بھی ہے جو کسی بھی طرح کی تعلیم سے محروم رہتا ہے اور پھر مسلسل تعلیم و تربیت سے محروم نسلیں تیار ہوتی رہتی ہیں ۔ لہذا اب ترجیحی بنیاد پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مربوط نظام تعلیم کو متعارف کرایا جائے جو ان تینوں کے درمیان کی خلیج کو پاٹ سکے اس کے لیے مکتب کا کل وقتی نظام بہت موزوں تھا مگر اس جانب اب تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔
ہم ایک ایسے نظام کے تحت رہ رہے ہیں جہاں ہمیں اپنے مذہبی امور کی کفالت خود کرنی پڑتی ہے یعنی اپنے صاحب خیر حضرات کے عطیات پر منحصر ہونا پڑتا ہے ۔ ایسے میں ترجیحات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سرمایہ کاری پر توجہ دیں ۔ مدارس و مساجد کی دیدہ زیب عمارت کی جگہ سادہ اور فلک بوس کی جگہ کام چلاؤ بلڈنگ بنا کر عطیات کو محفوظ کریں اور اس کی مناسب سرمایہ کاری کریں تاکہ ان سے وابستہ حضرات کی اچھی کفالت کی جاسکے، ان اداروں کی ضروریات کے لیے مستقل انتظام ہو سکے۔
ہم جس نظام کے تحت رہ رہیں ہیں اس میں یہ کافی گنجائش تھی کہ ہم اس سسٹم کا بڑا حصہ بن جائیں اور وہ ہم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ اس وقت ممکن ہو سکتا تھا جب ہم جلسوں اور ریلیوں میں پانی کی طرح بہائے جانے والے پیسوں کو منظم طریقے سے امت کے نونہالوں پر خرچ کرتے اور انھیں اس ملک کے سول سروسیز اور جوڈیشیری سسٹم میں داخل ہونے کا موقع فراہم کرتے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں مدارس اسلامیہ سے متعلق تخصیصی ادارے کھولے گئے ۔ ادب، حدیث، فقہ اور تفسیر وغیرہ میں تخصص کے لیے کثرت سے چھوٹے چھوٹے اداروں کا قیام عمل میں آیا، ان میں سے اکثر مقصدیت (vision) سے دور کام اور چودھراہٹ کی تلاش میں کھلا ۔ ان سے ملحق ہونے والے طلبہ کی اکثریت بھی کسی مقصد سے دور پناگاہ کی تلاش میں آئے ۔ یہاں ایک ترجیحی نقطہ موجود تھا مگر کسی نے اس کے طرف توجہ کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ طلبہ فقہ کی کئی کتابیں پڑھ کر آتے ہیں ، ان کتابوں کی قانونی زبان آج بھی معاصر قانون دانی کے ہم پلّہ ہی نہیں بلکہ بعض ناحیوں سے ان پر فوقیت رکھتی ہے ۔ اگر مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے معاصر قانون دانی کے لیے ادارے کھولے جاتے ، ان میں چن چن کر بچوں کو لایا جاتا اور منظم طریقہ سے انھیں تیار کرکے ہندوستانی نظام عدلیہ میں داخل کیا جاتا تو آج انڈین جوڈیشیری سسٹم کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ۔ یہ چیز اتنی ہماجہت فائدے کی حامل ہوتی کہ اس کو شمار کیا جانا مشکل ہوتا۔
پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے مواقع پر ہمارا سیاسی شعور ابلنے لگتا ہے، ہم کسی مسلم نام والے امیدوار کی کامیابی کو امت کی سرخروئی سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ کوئی”خان صاحب”جیتیں یا نہ جیتیں لیکن اتنا تو ضرور ہو جاتا ہے کہ ہم برادران وطن کو اپنا حریف بنا لیتے ہیں ، مدعو کا حریف بن جانا کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ان دونوں بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ ترجیحاتی بنیادوں پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم عوام کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں ، حکومتوں کے حقوق و ذمہ داریاں اور منجملہ طور پر عوام میں سیاسی و معاشرتی بیداری لانے والے پروگرام طے کر کے خوب زور وشور سے اس کی تشہیر اور پرچار کرتے ۔ یہ نہ صرف اس ملک کے حق میں سود مند ثابت ہوتا بلکہ ہمارے لیے بھی بہت ساری بھلائیوں کا ضامن ہو تا۔
کسی اقلیت کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہو ورنہ جرم ضعیفی کی پاداش میں اکثریت کے ظلم و زیادتی کا نشانہ بننا عین متوقع ہے ۔ اتحاد کے لیے جلسے تو کئے جاتے ہیں مگر خود اس جلسہ کے منتظمین برداشت اور رواداری کے مزاج سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔ ترجیحی بنیاد پر اتحاد کے لیے برداشت اور رواداری کا مظاہرہ اہم ہے جو آپ بغیر کسی جلسہ کے اپنے مابین کر سکتے ہیں۔
تالیف قلب کے قبیل کے وہ تمام امور جسے بہت پہلے سے کیا جانا چاہیے تھا اب گاہے بگاہے خوشامدی کے پیرایہ میں کیا جا رہا ہے ۔ وقت رہتے ترجیحی بنیاد پر دینی حمیت کے ساتھ کئے جانے سے یہ بہت بڑا انقلابی عمل ثابت ہوتا اور ہو سکتا ہے۔
حج زندگی میں ایک بار فرض ہے اور عمرہ ایک بار سنت اس کے بعد صرف نفل ہے ۔ ترجیحات کا صحیح ادراک اس کو معاشرتی زندگیوں میں انقلابی بنا سکتا ہے۔
ہمارے انفرادی زندگی کے بہت سے کام مثلاً: شادی بیاہ کے موقعوں پر ترجیحات کا فقدان ہوتا ہے ۔ یہ نہ صرف ہمارے پرسنل زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے دور رس نتائج سماج پر پڑتے ہیں جس کے لیے ہم دوسری چیزوں کو محرک مانتے ہیں حالانکہ بالواسطہ طور پر ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
Comments are closed.