نئی شمع جلاؤ کہ روشنی کم ہے

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
طبعی طور پر یہ لازم ہے کہ موقع بہ موقع جسم اپنا خون تازہ کرتا رہے، پرانا خون اپنی جگہ سے ہٹے اور نیا خون اس کی جگہ پر رواں ہو سکے، اگر ایسا نہ ہو گا تو انسان کا جسم فاسد خون کا مرکز بن جائے گا، خون کی روانی بھی سست ہوجائے گی اور وہ مر بھی سکتا ہے، قدرت کا یہی نظام ہے یہی طریقہ کار ہے کہ ایک خلیہ ختم ہوتے ہی دوسرا تیار ہوجاتا ہے، اگر مستقل ایک ہی خلیہ کو رکھا جائے یا اگر کوئی خلیہ ختم ہوجائے اور دوسرا خلیہ نہ بنتا ہو یا کوئی ضد پر اڑا رہ جائے کہ نئے خلیہ کی ضرورت ہی نہیں ہے، تو ایسے میں انسان لاغر و نحیف ہو کر خود بخود مر جائے گا، یہی اس امت کی قیادت کا مسئلہ ہے، نیا خون چاہئے لیکن پرانا خون اپنی جگہ چھوڑنے کو بلکہ برداشت کرنے کو بھی روادار نہیں، ایک چراغ اپنا فتیلہ بھی ختم کرنے کو ہے، لیکن کوئی نیا چراغ جلانے کو تیار نہیں اور اگر جل جائے تو اسے بقا دینے کو راضی نہیں_
غور کیجیے! ایک تو کوئی ایسی قیادت نہیں جسے صحیح معنوں میں قیادت کہا جائے؛ لیکن اگر مان بھی لیا جائے تو قیادت اپنی عمر پار کرچکی ہے، وہ خود عافیت و راحت اور گوشہ نشینی کو ترجیح دینا چاہتے ہیں؛ مگر مریدین کی انا اور فکر کے جمود اور ایک ٹانگ کی مرغی کے حامی اس کا اقرار نہیں کرنا چاہتے، انہوں نے اسے اپنی ناک کا مسئلہ بنا لیا ہے، چنانچہ جدید ترین خون بھی ان کے سامنے ڈٹ جانے کو تیار نہیں، وے اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں، اپنا مقام و مرتبہ کے خلاف جانتے ہیں، یوں تو پوری دنیا میں لیکن خاص طور سے اس وقت پچیس سے تیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ایک ایسا عہد مسلط کردیا گیا ہے؛ کہ اگر عہد اکبری کو الگ کردیا جائے، تو کوئی دوسرا عہد اس کے مقابل نہیں؛ لیکن سچ جانئے اس میں شعلہ و شبنم سب کا ہاتھ ہے:
ستم ہیں آب و گل پر آب و گل کے
چمن لوٹا چمن والوں نے مل کے
کلیجہ رہ گیا پھولوں کا ہل کے
نہ جانے کیا کہا غنچے نے کھل کے
عصر حاضر میں قیادت کی بے دلی اور دوہرا رویے نے عام مسلمانوں کا سینہ چھلنی کردیا ہے، سرکاری سطح پر اور فاشزم طاقتیں جو کچھ اپنا کھیل کھیل رہی ہیں، وہ اپنی جگہ پر مسلم ہے؛ لیکن اسی کے ساتھ خود مسلمانوں کی اعلی صف میں جو فتنہ و فساد مچا ہوا ہے، علمی مباحث کے نام پر جو سوقیانہ گفتگو کا رواج پاگیا ہے، اپنے اپنے لاحقہ کو ایمان کا لازمی جزو سمجھ کر جو دنگے ہورہے ہیں، وہ ناقابل برداشت ہیں، آئے دن مارکیٹ میں ایک نئی بحث چھڑ جاتی ہے، ایک نیا شگوفہ چھوڑ دیا جاتا ہے، اور پھر ایک بھیڑ ایک دوسرے سے گتھ جاتی ہے، چاروں طرف دیکھنے کے بعد بہ مشکل کوئی نئی مشعل نظر آتی ہے، نیا چراغ دکھائی نہیں دیتا، سب کے سب انہیں چراغوں پر مرجانے کو اور طواف کرتے ہوئے ہلاک ہوجانے کو شہادت سمجھ بیٹھے ہیں، گویا کہہ رہے ہیں:
تو اکیلی نہیں ہے اے شمع محفل
تیرے چند ہم داستان اور بھی ہیں
یا یوں کہا جائے:
شاخ گل کی چھاوں میں گلچیں ہے اب آرام سے
دشمن خانہ ہی آخر صاحب خانہ بنا
یوں اسلام کی رسوائیوں کا سامان نہ کیجئے، قرآن و سنت پر کسی کی اجارہ داری نہیں، علمی اختلافات کو درجات میں بلند کیجئے یا سنجیدہ محفلوں میں اسے زیر بحث لائیے! مگر سر بازار گرما گرمی بند کیجئے! خود کو حق کا حقدار اور دوسرے کو حق سے محروم جاننا ہی بڑی بھول ہے، وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، علم قطعی کا دعوی کرنا جہالت ہے، تقدس کے نام پر مختلف فیہ معاملات میں یقیں محکم جیسا سلوک بھی نادانی کی بات ہے، تاریخ کے صفحات کو بار بار الٹ پلٹ کرنا اور اس سے متنازع بیانات نکال کر کم علموں کے درمیان رکھ دینا گویا بھوکے جنگلی جانوروں کے سامنے کچہ گوشت رکھ دینا ہے، خدا را__ امت کا شیرازہ نہ بکھیرئے! اپنی قیادت کے گمان میں پوری قوم کو سولی پر نہ چڑھائیے!۔
29/09/2019
Comments are closed.