ماہِ صفر منحوس نہیں!!!

مفتی محمد اشرف قاسمی

[email protected]

صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ایک موضوع روایت سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگتی ہے کہ: "حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفر کے مہینے میں زمین پر بہت وبائیں اور بلائیں اترتی ہیں۔ اس سے حفاظت کے لیے ہر نماز کے بعد "یا باسط یا حافظ” گیارہ مرتبہ پڑھیں اور اس کا ورد کیا کریں۔”

واضح ہو کہ یہ روایت ذخیرہ احادیث میں کہیں نہیں ہے، یہ موضوع (من گھڑت) ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس من گھڑت روایت کا ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں؛ بلکہ اسے محض مسلمانوں میں غلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔

در اصل دورِ جاہلیت کے اوہام اور بد شگونیوں میں ماہِ صفر کا مہینہ بھی شامل تھا۔ مشرکین ماہِ صفر کو نحوست والا مہینہ سمجھتے تھے اور اس میں کوئی نیا کام شروع نہیں کرتے تھے۔ ان لوگوں کا گمان تھا کہ اس مہینے میں مصیبتیں، پریشانیاں، آفتیں نازل ہوتی ہیں اور یہ مہینہ نحوست، پریشانیوں اور مصیبتوں والا ہے۔ اسی جہالت کے نتیجے میں آج کچھ لوگ اپنے باطل خیال میں اسی بات کو پیوست کیے ہوئے ہیں کہ صفر کا مہینہ نحوست کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں بلائیں اترتی ہیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ بعض لوگ ماہِ صفر میں شادی بیاہ نہیں کرتے، سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں، خاص طور پر صفر کے مہینے کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ منحوس سمجھی جاتی ہیں اور ان کو "تیرہ تیزی” کہا جاتا ہے۔
نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا: "لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَةَ“۔ (۱) ﴿چھوت لگ جانا، صفر کی نحوست اور الو کی نحوست کوئی چیز نہیں﴾ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاؤں تلے روند چکے ہیں۔

جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ (ماہ) صفر (میں نحوست کی) کوئی چیز نہیں ہے تو پھر اس خیر والے مہینے میں شر ہونے کا معمولی سا بھی کوئی شائبہ باقی نہیں رہتا۔ صفر کا مہینہ باقی دوسرے مہینوں کی طرح ہے۔
یاد رکھیے تمام دن، تمام مہینے اور سال اللہ کے ہیں۔(۲) اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے ہی اعمال کے سبب ہوتا ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: "اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگذر ہی کرتا ہے۔ (۳)
نحوست کا تعلق ہر گز کسی دن، وقت، تاریخ، مہینہ یا سال سے نہیں ہوتا۔ کسی بھی انسان کا آزمائش میں مبتلا ہونا قانونِ قدرت ہے، وہ جو چاہے کرے، جسے جیسے چاہے آزمالے۔ کسی دن یا مہینے میں مصیبت نازل ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اسے منحوس قرار دے دیا جائے۔ تاریخِ اسلام کے کئی ایسے خوشگوار واقعات ماہِ صفر میں رونما ہوئے ہیں جن کو جاننے کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ ماہِ صفرخیر والا مہینہ ہے۔
ایک روایت کے مطابق حضور نبی کریم علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے اسی مہینے میں کروایا۔ علامہ محمد بن یوسف صالحی شامی فرماتے ہیں: ’’جعفر بن محمد نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح صفر کے مہینے میں ہوا۔(٤)
اسی طرح ایک روایت کے مطابق حضور نبی کریم علیہ السلام نے مکہ سے مدینہ سفرِ ہجرت کا آغاز صفر کے مہینے میں فرمایاتھا۔ یہی وہ سفر تھا جس کے بعد مدینۃ المنورۃ اسلامی مرکز بنا اور وہاں سے دعوتِ اسلام کا سلسلہ نہایت تیزی سے آگے بڑھا اور مسلمانوں کی قوت میں اضافہ ہوا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جن کا لقب سیف اللہ ہے۔ آپ نے صفر کے مہینے میں اسلام قبول کیا۔ آپ کا یہ قبولِ اسلام اس قدر نیک شگون ثابت ہوا کہ اس کے بعد آپ نے اسلام کے لیے جتنی جنگیں لڑیں ہمیشہ سر بلند رہے اور کامیابیاں حاصل کیں۔ اسی طرح ایک اور عظیم صحابی حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نے بھی صفر کے مہینے میں اسلام قبول کیا۔ آپ کا قبولِ اسلام بھی اسلام کے لیے نہایت نیک شگون ثابت ہوا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں "اجنادین” کے معرکے میں آپ نے نوّے ہزار مجاہدین کی کمان سنبھالی اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ یرموک میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ فتح مصر ہے۔ آپ نے صرف چار ہزار جانبازوں کے ساتھ مصر کی سرحد کو عبور کیا۔ نیز صفر کے مہینے میں مختلف غزوات و سرایات بھی ہوئیں جن میں مسلمان کامیاب رہے۔
مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ اور بھی واقعات موجود ہیں جو ماہِ صفر میں رونما ہوئے۔ اور مسلمانوں کے لیے خیر ثابت ہوئے۔

مذکورہ آیات، روایات اور واقعات سے واضح ہوتاہے کہ ماہِ صفر خیرہی خیر ہے۔ شر ہرگز نہیں ہے۔ اگر معاذ اللہ ماہِ صفر خیر کے بجائے شر اور بلائیں نازل ہونے کا مہینہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی صورت اپنی صاحبزادی کا نکاح اس مہینے میں نہیں کرتے، اسی طرح جن پاک ہستیوں نے اس خیر و برکت والے مہینے میں اسلام قبول کیا تو ان کا یہ قبولِ اسلام نیک شگون نہیں ہوتا؛ لہٰذا ماہِ صفر جسے صفر الخیر اور صفر المظفر بھی کہاجاتاہے۔ ہرگز مصیبتوں اور بلاؤں کا مہینہ نہیں ہے۔ اگر کسی کے ساتھ صفر کے مہینے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو اس کا مقصد یہ ہر گز نہیں نکالنا چاہیے کہ یہ مہینہ بلائیں اترنے کا ہے۔
بے شک خیر و بھلائی عطا کرنے والا، سکھ اور چین دینے والا، کامیابیاں عطاکرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ نعمتیں عطا کرکے آزمانے والا اور نعمتیں چھین کر آزمانے والی ذات بھی وہی ہے۔ مصیبت آنا بھی اسی کی مشیت ہے۔ قحط سالی، طوفان، سیلاب وغیرہ جیسی آفات بھی اسی کی طرف سے ہیں۔ لہٰذا کسی مصیبت کے نازل ہونے پر اس وقت یا دن یا مہینے کو منحوس کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتے ہوئے صبر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توہمات اور بد شگونیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین!

(۱) صحیح البخاري، کتابُ الطِّب، بابُ الھامة، {رقم الحدیث: 5770}
(۲) إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ (سورة التوبة، آیة: ۳٦)
(۳) وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿سورة الشوری، آیة: ۳۰﴾
(٤) سبل الھدیٰ والرشاد، {ج: ۱۱/ ص: ۳۷}

۲/صفر المظفر۱٤٤۱ھ
2/ اکتوبر 2019ء

Comments are closed.