۲/اکتوبر_ گاندھی جینتی!

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

موہن داس کرم چند گاندھی (۲/ اکتوبر۱۸۶۹ء تا ۳۰/ جنوری ۱۹۴۸ء) بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ اس طریقہ کار نے ہندوستان کی آزادی میں عظیم کردار ادا کیا، اور ساری دنیا کیلئے حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لئے روح رواں ثابت ہوئی، اور قوموں نے جانا کہ ہتھیار کے بغیر بھی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو کہا جاتا ہے۔ انہیں بھارت سرکار کی طرف سے بابائے قوم (راشٹر پتا) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گاندھی جی کی یوم پیدائش ۲/ اکتوبر کو گاندھی جینتی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جو پورے بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے اور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔ عدم تشدد کے پیشوا کے طور پر گاندھی جی نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی کرنے کی وکالت کیا کرتے تھے۔ وہ سابرمتی آشرم میں رہتے اور سادہ زندگی بسرکرتے تھے۔ لباس کے طور پر روایتی ہندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے، جو وہ خود سے چرخے پر بُنتے تھے۔ وہ سادہ اور سبز کھانا کھاتے اور روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لئے لمبے اُپواس (روزے) رکھا کرتے تھے، کمزور جسم اور نحیف بدن کو ڈنڈے کا بھی سہارا تھا۔
مہاتما گاندھی کی سوچ فاشزم سوچ پر کاری ضرب تھی، یہ پنڈت اور برہمن کے غرور کو توڑتی تھی، آرا ایس ایس ان کی سخت مخالف تھی، اور انگلش حکومت کی پیروکار تھی، انہیں گاندھی جی کی عدم تشدد کی پالیسی سمجھ نہیں آتی تھی، اتحاد قوم اور انسانیت سے وہ کوسوں دور تھے، وہ تو بس زعفرانی سوچ کو ہی انتہا سمجھتے تھے، اور ہندوستان کا وجود زعفرانیت کیلئے ہی روا جانتے تھے؛ چنانچہ دونوں سرے ندی کے دو کنارے تھے، اور اسی دوری نے انہیں قتل کروا دیا_ انہیں ۳۰/جنوری ۱۹۶۸ء کو برلا ہاؤس موجودہ گاندھی سمرتی میں قتل کیا گیا، جہاں گاندھی جی کسی مذہبی میل ملاپ میں اپنے خاندان کے ساتھ موجود تھے، اس جگہ ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھنے والا ایک انتہا پسند و قوم پرست ہندو شخص نتھو رام گوڈسے پہنچا اور اس نے موہن داس گاندھی پر گولی چلائی۔
حادثہ کے بعد گاندھی کو فوراً برلا ہاؤس کے اندر لے جایا گیا، مگر تب تک وہ دم توڑ چکے تھے۔ اس حملے سے پہلے ان پر پانچ مزید حملے بھی ہوئے تھے مگر ان سب میں قاتل ناکام رہے۔ ان میں سب سے پہلی ناکام کوشش ۱۹۳۴ء میں کی گئی تھی۔ یہ قتل کوئی عام قتل نہ تھا؛ بلکہ یہ اسی گنگا جمنی تہذیب اور انسانیت نوازی اور محبت پروری کا قتل تھا، جس پر ہندوستان کی بقا موجود ہے، جس نے ہندوستان کو دوسرے ملکوں پر فائق بنا رکھا تھا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت یہ کوشش ریت پر تصویر کے موافق تھی؛ لیکن اب سر کی آنکھوں سے کھلے عام دیکھا جا سکتا ہے کہ اس قتل کا انجام مکمل صورت میں ہندوستان بھگت رہا ہے، وہ اپنے ہی بابائے قوم کی عالی خدمات سے روگردانی کر رہا ہے، اور فاشسٹوں کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہے، ملک کی حالت دگرگوں ہوتی جارہی ہے اور فاشزم سر چڑھ کر بول رہا ہے، ضرورت ہے کہ گاندھی جی تعلیمات عام کیا جائے اور ان کے مخالفین کی پرکھ کرتے ہوئے انہیں سیاسی اعتبار سے کمزور کیا جائے۔(دیکھیے:وکیپیڈیا_ گاندھی جی)

02/10/2019

Comments are closed.