بابائے قوم مہاتما گاندھی، علامہ اقبال اور تعمیر وطن

ڈاکٹر قاضی سید عروج احمد
ای میل: [email protected]
موبائل: 7049024741
بابائے قوم مہاتما گاندھی بیسویں صدی کے سب سے عظیم مفکر، فلسفی، صاحب بصیرت سیاسی رہنما،حریت کے حامی، قومی اتحاد کے علمبردار اور تاریخ ساز شخصیت تھے، آپ نے وطن عزیز ہندوستان کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ہی دنیا کے دیگر ملکوں کو بھی غیروں کی غلامی سے آزاد ہونے کا حوصلہ بخشا۔
آپ کا شمار ان عظیم مفکرین میں ہوتا ہے جو دنیا کے نشیب و فراز کا گہرا مطالعہ کرکے روشن و تابناک مستقبل کے لیے قوم کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
جس طرح بابائے قوم ایک سچے پکے مذہبی اصولوں کے پابند انسان تھے اسی طرح علامہ اقبال بھی شاعر مشرق کے ساتھ شاعر اسلام کے نام سے مشہور و مقبول ہوئے؛ لیکن دونوں عظیم شخصیات ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ اور ذات پات، مذہب، علاقائیت، رنگ و نسل و زبان کی بنیاد پر اختلاف کے بجاے قومی یکجہتی کا نظریہ ان کی فکر کا بنیادی پتھر ہے۔
علامہ پکے محب وطن، مذہبی رواداری کے علمبردار، اور بلا کسی عناد و تعصب کے ہندوستانی فلاسفروں، رشی منیوں اور سنتوں کے مدح خواں تھے۔ آپ نے مذہب اسلام سے گہری وابستگی کے باوجود ہندوستانی فکر و فلسفے کا وسیع وعمیق مطالعہ کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ کپل، شنکر آچاریہ، بادرائن اور رامانج کے فلسفوں سے متاثر تھے، جس کا عکس ان کے کلام میں مختلف مواقع پر ظاہر ہوتا ہے۔
جذبۂ حب الوطنی سے سرشار علامہ نے اپنی شاعری کے دور اولین میں چند نظمیں تخلیق کی ہیں؛ جن میں "ہمالہ” کے نام سے لکھی گئی مخصوص نظم کو ان کے اردو کلام کے پہلے مجموعے "بانگ درا” 1934 کی اشاعت میں صفحہ اول پر جگہ ملی۔ اس نظم میں اقبال نے اپنے وطن عزیز کی قدیم تہذیب و ثقافت اور اس وادئ کہسار کے قدرتی مناظر کی خوب مدح کی اور ہمالہ کو صرف ایک پہاڑ ہی نہیں، بلکہ ہندوستان کے تحفظ اور سالمیت کا سنتری اور نگہبان ماناہے:
اے ہمالہ! اے فیصل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو، دیوار ہندوستاں ہے تو
اسی طرح جب ہم مہاتما گاندھی کے فلسفۂ اہنسا، عدم تشدد، سرو دھرم سمبھاؤ اور "جیو اور جینے دو” کے نظریات کی روشنی میں ان کی آپ بیتی My experience with truth کا بدرجۂ غایت مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کے قابل ذکر فلسفیوں اور دانشوروں کے افکار و نظریات کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا۔
مہاتما گاندھی ہندوستانی زبان کے زبردست مداح تھے.
گاندھی جی نے اپنی عوام کو بیدار کرنے اور انگریزوں کے چنگل سے نکال کر تحریک آزادی سے جوڑنے کے لئے اردو رسم الخط میں بھی ایک اخبار "ہریجن سیوک” کے نام سے ہفتہ روزہ جاری کیا..جس کا پہلا شمارہ 5, مئی 1946ء بروز اتوار احمدآباد کے کالوپور میں نوجیون پریس سے جاری ہوا۔۔
تحریک آزادی کی جدوجہد میں بار بار یہ سوال بڑے زورشورسےاٹھاکہ ہماری قومی زبان کیا ہوگی؟ تو بابائے قوم نے اس لسانی تنازعےکے حل کے طور پر قوم کے سامنے ہندی یا اردو کے بجائے "ہندوستانی” زبان تجویز کی؛یہ شرف بھی ہمارے شہر اندور کو ہی حاصل ہے جب1918 میں آل انڈیا ہندی ساہتیہ سمیلن کی صدارت کے دوران اپنے ہندوستانی زبان کے عقیدے کو مزید تقویت بخشتے ہوئے گاندھی جی نے کہا کہ:
"ہندی سے میری مراد وہ زبان ہے جو کہ شمالی ہندوستان میں رائج ہے جسے ہندو اور مسلمان دونوں ہی مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں اور جس کو ہندو اور مسلمان دونوں ہی بآسانی سمجھ لیتے ہیں اور جس کی لفظیات بھی مشترکہ ہے۔”(1)
اس ہندوستانی زبان کی مثال علامہ اقبال کے "ترانۂ ہندی” کی سادہ اور دلکش زبان کے حوالے سے گاندھی جی پیش کرتے ہیں اور اس ترانے کو "ہندوستان کی قومی زبان کا نمونہ” قرار دیتے ہوےگاندھی جی فرماتے ہیں کہ:
"کون ایسا ہندوستانی دل ہے، جو اقبال کا "ہندوستان ہمارا” سن کر دھڑکنے نہیں لگتا، اگر کوئی ایسا دل ہے تو میں اسے اس کی بدنصیبی سمجھوں گا۔ اقبال کے اس ترانے کی زبان ہندی یا ہندوستانی ہے؟ یا اردو؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ہندوستان کی قومی زبان نہیں ہے۔” (2)
علامہ اقبال اور مہاتما گاندھی کا پیغام مشترکہ طور پر اس ملک میں بسنے والے مختلف فرقوں اور طبقوں میں آپسی میل ملاپ اور بھائی چارے کو فروغ دینا تھا۔ سرزمین ہند کے تعلق سے اقبال کے جذبات کا مظاہرہ ان کے اسی "نغمۂ عشق” ‘ترانۂ ہندی’ سے ہوتا ہے۔ جو اپنی مادر وطن کے لیے ان کی دیوانہ وار محبت کو لطیف و نازک رنگ وآہنگ میں ظاہر کرتا ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا
اس نظم کے متعلق بابائے قوم مہاتما گاندھی نے رسالہ "جوہر” (دہلی) 1938 کے خصوصی شمارہ "اقبال نمبر” کے لیے ایڈیٹر کے نام ایک خط اردو میں خود اپنے ہاتھ سے لکھا اور اس پر اردو میں دستخط کر کے علامہ محترم سے اپنی عقیدت اور اس نظم "ترانۂ ہندی” کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی:
"مورخہ: 9/ جون 1938ء
بھائی محمد حسین!
آپ کا خط ملا۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے بارے میں کیا لکھوں؟ لیکن اتنا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ جب ان کی مشہور نظم "ہندوستان ہمارا” پڑھی تو میرا دل ابھر آیا۔ اور یارودہ جیل میں تو سیکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔ اس نظم کے الفاظ مجھے بہت ہی میٹھے لگے اور یہ خط لکھتا ہوں تب بھی وہ نظم میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔
آپ کا:
مو، ک، گاندھی” (3)
مہاتما گاندھی کے اس خط کے ذریعے اقبال کی نظم ترانہ ہندی کے بارے میں ان کی دلی کیفیت کو بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے؛ گویا اقبال کی یہ نظم انہیں تحریک آزادی کی جدوجہد کےلیےروحانی غذا فراہم کرتی اسی لیے جسے وہ ہمیشہ گنگناتے رہے۔
اقبال نے ‘رگ وید’ کی ایک معروف دعا "گائتری منتر” پر مبنی ایک نظم "آفتاب” تخلیق کی جو رسالہ ‘مخزن’ 1902 میں شائع ہوئی:
اے آفتاب روح دوران جہاں ہے تو
شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو
اس نظم کے بارے میں خود علامہ فرماتے ہیں کہ اس کے اشعار خدائے برتر کی عظمت اور بڑائی کو بیان کرتے ہیں، ویدوں میں لفظ "سوتر” کا استعمال سورج کے لیے کیا گیا، جس طرح تصوف کی دنیا میں صوفیائے کرام نے "نور” اور "تجلی” خدا کے لیے استعمال کیے ہیں اسی طرح اردو میں "سوتر” کے متبادل علامہ نے ‘آفتاب’ کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب نور کا سرچشمہ ہے۔ یہی "گائتری منتر” گاندھی جی کا مذہب، اور عقیدت کا مرکز تھا۔
مہاتما گاندھی نے جس رام کو تا زندگی اپنی عقیدت و محبت کا مرکز بنا کر پوجا اور اپنے آخری وقت میں بھی "ہے رام !” کہہ کر یاد کیا، انہیں ‘رام’ کو بھی علامہ نے اپنے کلام میں ایک شاہ کار نظم کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا اور ان کے اوصاف بیان کر کے مدح کی ہے۔ ان کی شجاعت، پاکیزہ زندگی، انسانیت سے محبت اور فرماں برداری کو علامہ اقبال نے ان الفاظ کا خوبصورت جامہ پہنایا:
لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند
سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رام ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
سچے رام بھکت اور ان کے حکومتی نظام کے مداح گاندھی جی نے مادر وطن کی آزادی کے بعد ‘رام راجیہ’ کے قیام کا جو خواب دیکھا تھا وہ ان ہی اوصاف کی خاطر تھا جنہیں علامہ اقبال نے اپنی نظم کے ذریعے بیان کیا ہے۔ جب گاندھی جی سے ان کے "رام راجیہ” کے تصور پر سوال کیا گیا کہ آپ کے تصور کا رام راجیہ کس قسم کی حکومت کے طرز پر ہوگا۔ تو گاندھی جی نے جواب دیا کہ: "وہ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حکومت کے طرز پر ہوگا۔
رام راجیہ اور وہ بھی حضرت عمر فاروقؓ کے طریقے پر۔۔۔ یہ نظریہ محبت کے دیوتا اور انسانیت کے مسیحا، وسیع المشرب، مہاتما گاندھی ہی پیش کرسکتے تھے۔
گاندھی جی کی آپ بیتی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ ہر روز صبح "گیتا” کا پاٹھ کرتے اور اس کے ساتھ قرآن مجید اور بائبل کا مطالعہ بھی کرتے۔ "بھگود گیتا” کے فلسفہ پر بہت مضبوطی اور پابندی کے ساتھ عمل پیرا رہے جس کا اثر تحریک آزادی کی مہمات میں نظر آتا ہے۔
اسی طرح کرشن جی کے فلسفۂ عمل سے علامہ اقبال متاثر ہوکر "گیتا” کے اشلوک میں خودی کی تعلیمات تلاش کرلیتے ہیں۔ اور اپنے وطن عزیز کی نوجوان نسلوں کے لیے گیتا کے اصل پیغام کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور اپنے دوست مہاراجہ کرشن پرساد شاد کو 11 اکتوبر 1921ء کو ایک خط یوں لکھتے ہیں کہ:
"زمانے نے مساعدت کی تو "گیتا” کا اردو ترجمہ کرنے کا قصد ہے۔ فیضی کا فارسی ترجمہ تو حضور کی نظر سے گزرا ہوگا۔ فیضی کے کمال میں کس کو شک ہوسکتا ہے، مگر اس ترجمے میں اس نے گیتا کے مضامین اور انداز بیان کے ساتھ بالکل بھی انصاف نہیں کیا؛ بلکہ میرا تو یقین ہے کہ فیضی گیتا کی روح سے ناآشنا رہا۔”(4)
علامہ کے "فلسفۂ عمل” کی تشکیل میں "گیتا” کا اثر کارفرما ہے۔ (گو اس کا اصل سرچشمہ قرآن کا "فلسفۂ عمل اور اسلامی تعلیمات ہیں) گیتا کے اشلوک کی تشریح اقبال کے اس شعر میں صاف نظر آتی ہے:
سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑدے
علامہ حریت کے حامی تھے اور برطانوی سامراج کی غلامی پر بہت رنجیدہ رہتے تھے۔ ان کے ابتدائی دور کی نظم "پرندے کی فریاد” کے یہ اشعار ان کی قلبی کیفیت کے آئینہ دار ہیں:
آزادیاں کہاں اب وہ اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
اسی قید کا الہی! دکھڑا کسے سناؤں
ڈرہے یہیں قفس میں، میں غم سے مر نہ جاؤں
اسی ذہنی یگانگت کانتیجہ ہے کہ محب وطن اقبال نے مہاتما گاندھی کی سودیشی تحریک کی بھی حمایت کی تھی، رسالہ "زمانہ” (کانپور) مئی 1906ء میں شائع ان کے مضمون سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل میں وطن عزیز کی بے پناہ الفت اور ملک کو خوشحال دیکھنے کی تڑپ حد درجہ موجود تھی۔ اقبال نے ملک کے نوجوانوں کے لیے جو پیغام دیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کے لیے گاندھی جی کی اس سودیشی اپناؤ کی تحریک کو بے حد ضروری گردانتے ہیں:
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
صفال ہند سے مینہ و جام پیدا کر
درج ذیل مضمون نما مراسلے میں سیاسی آزادی کے ساتھ اقتصادی آزادی کی طرف توجہ دلائی اور مل کر کام کرنے کا پیغام اس والہانہ انداز میں دے رہے ہیں:
"مذہب دنیا میں صلح کرانے کے لیے آیا ہے نہ کہ جنگ کی غرض سے ۔۔۔۔۔ ہمیں مقدس عہد لینا ہے کہ ہم خارجی ممالک کی مصنوعات کا استعمال نہ کریں گے۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس تحریک سے ہندو مسلمان میں اتحاد اغراض پیدا ہوجائے اور رفتہ رفتہ قوی ہوتا جائے تو سبحان اللہ اور کیا چاہیے۔ ہندوستان کے سوئے ہوئے نصیب بیدار ہوں اور میرے دیرینہ وطن کا نام جلی قلم سے فرق اقوام میں لکھا جائے۔”(5)
جس طرح تعمیر وطن کے سلسلے میں علامہ اقبال گاندھی جی علامہ کی وسیع النظری علمی فراست اور قائدانہ صلاحیت کے قائل تھے۔ اسی طرح ملک کی اقلیتوں کے ترقی و استحکام کے لیے قائم جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ کی تقرری پر حکیم اجمل خان اور مولانا محمد علی جوہر کے مشورے سے گاندھی جی نے اقبال سے یہ درخواست کی کہ:
"مسلم نیشنل یونیورسٹی آپ کو آواز دے رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اگر اسے اپنے ہاتھ میں لے لیں تو آپ کی فاضلانہ قیادت میں یہ ترقی کرسکےگی، میری آرزو ہے کہ آپ اس آواز کو لبیک کہیں۔”(6)
اس عاجزانہ انداز سے گاندھی جی کی علامہ سے عقیدت اور ان کی قیادت و دیانت کا اعتراف عیاں ہوتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ علامہ اپنی ذاتی اعذار کی بنا پر گاندھی جی کی اس تجویز پر لبیک نہ کہہ سکے۔
اسی طرح علامہ اقبال بھی گاندھی جی کی عادات و اخلاق، اصول پسندی کے خصائل کے ساتھ تحریک آزادی میں ان کی قربانیوں کے معترف تھے۔ جن کا ذکر 21 نومبر 1921 کے روزنامہ "زمیندار” میں شائع ہوئی ان کی نظم "گاندھی” میں کرتے ہوئے اقبال نے مہاتما گاندھی کو "مرد پختہ کار و حق اندیش و باصفا” کہا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ بابائے قوم مہاتماگاندھی اور علامہ اقبال دونوں اپنی اپنی قوم کو بیدار کر کے محبت کا جام پلاتے رہے تاکہ وطن عزیز غلامی کی بیڑیوں کو توڑ کر دنیا کے عظیم ملکوں میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کو ملک کی ترقی اور فلاح و بہبودکے لیے نہایت ضروری قراردیا۔ اور ان کا یہی پیغام موجودہ حالات میں بھی لازم ہے کیوں کہ قومی اتحاد، باہمی محبت اور قوم پرستی کی بنیادوں پر ہی ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔
وہ ہندو اور مسلمان دونوں کو ہاتھ پھیلا کر دعوت دیتے ہیں:
آ، غیریت کے پردے اک بار پھر اُٹھا دیں
بِچھڑوں کو پھر مِلا دیں نقشِ دُوئی مٹا دیں
سُونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شِوالہ اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلَس مِلا دیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پُجاریوں کو مے پِیت کی پلا دیں
شکتی بھی، شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے
علامہ اقبال کی نظموں؛ ترانہ ہندی وغیرہ کے تعلق سے گاندھی جی کی وارفتگی و جذبات کو جہاں اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے وہیں اردو زبان و ادب کے اثر آفریں وشکر انگیزی اور تعمیر وطن میں اس زبان کے کردار کے تعلق سے بھی گاندھی جی کی فہم وفراست قابل توجہ اور لائق اعتناء ہے۔ حب الوطنی کے جذبات سے سرشار تعمیری زبان میں لکھی گئی اقبال کی نظموں پر گاندھی جی نے جس وسعت ظرفی کے ساتھ اس زبان کے ادب و ثقافت سے ہر ہندوستانی کو جوڑنے کی کوشش کی ہے ، اسی طرح تمام باشندگانِ ہند اس زبان کی اثر آفرینی سے فائدہ اٹھا کر ملک کی تعمیر میں اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔
حوالہ جات:
۔1.Dr B.R. Saxena-Gandhi ji’s solution to language problem in India 1970 P-7
2.مہاتما جی، ڈی تندولکر ج 7، ص 296
3. محب وطن اقبال: ص25، مظفرحسین برنی
4. محب وطن اقبال: ص94، مظفرحسین برنی
5. انوار اقبال: ص 25، بشیر احمد ڈار
۔ 6.Collected works of M. Gandhi vol.19 P-3
Comments are closed.