دارالعلوم اسراریہ سنتوش پور کلکتہ کے مسابقہ قرآن کریم میں شرکت

 

مفتی محمد مناظر نعمانی قاسمی

26ستمبر کو کولکاتہ شہر سے متصل کے محلہ فقیر پاڑہ،جولا، سنتوش پور میں واقع مفکر ملت حضرت مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی ؒ کی ایک یادرگار دینی ادارہ دارالعلوم اسراریہ سنتوش پور میں وہاں کے طلبہ نورانی قاعدہ وناظرہ،حفظ و تجویدکا داخلی ماہانہ مسابقہ تھا، جس میں شرکت کے لئےادارہ کے مہتمم جناب مولانا نوشیر احمد دامت برکاتہم نے دعوت پیش کی، اس ادارہ کی نیک نامی اور تعلیمی معیار کی بلندی سے متعلق بھت سی چیزوں سے میں پہلے ہی سے واقف تھا جس کی وجہ سے ادارہ میں حاضری اور نظام کو قریب سے دیکھنے کی خواہش دل ہی دل میں تھی،بایں وجہ اور اس لئے بھی کہ ہمارے محسن ومربی مفکر ملت ؒ کی وہ ایسی یاد گار ہے جسے آپ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے چاہتے اور پرمسرت لہجہ میں اس کا اکثر ذکر خیر فرماتے تھے اس لئے حضرت ؒ کے سابق خادم خاص کی اس دعوت کو اپنی دیرینہ آرزؤں کی تکمیل کا سبب سمجھتے ہوئے فورا قبول کرلیا اور نظام سفر بنا کر دارالعلوم اسراریہ پہونچ گیا۔

پورے مسابقہ میں یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ شریک رہا، اس طرح کا مسابقہ اس ادارہ میں ہرماہ تعلیمی نظام میں کسی طرح کا خلل ڈالے بغیر منعقد ہوتا ہے اس لئے بچوں کے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ تمام طلبہ بلا کسی جھجک اور تکلف کے تسلسل کے ساتھ پڑھے جارہے تھے، نفس مسابقہ میرے لئے بھی نیا نہیں تھا مگر اس میں کئی چیزیں ضرور نئی اور سبق آموز تھیں۔

انہی کچھ چیزوں کا ہم یہاں تذکرہ کرنا چاہتے ہیں ممکن ہے اس قحط الرجال کے دور کوئی صاحب فکر اور ارباب اختیار اٹھ کھڑے ہوں اور قوم کےوہ نونہال

جو ہمارے مدارس میں قوم کی ایک امانت کے بطور پر ہمارے پاس ہیں ان کا مقدر بن سنور جائے۔

اس وقت ملک بھر میں کچھ ہی مدارس ہیں جہاں تمام طلبہ قرآن کریم کو کسی ایک عمدہ اور اچھے لہجہ کے ساتھ پڑھتے ہوں، ان ہی اداروں میں دارالعلوم اسراریہ سنتوش پور ، کولکاتہ کا نام بھی الحمد للہ چند برسوں میں وہاں کے اساتذہ کرام کی جہد مسلسل و فکر مندی کی برکت سے بھت نمایاں نظر آرہا ہے، دوسوسے زائد بچوں سے قرآن کریم سننے کا موقع میسر ہوا، جس سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم کسی عرب ملک کے بچوں سے قرآن سننے کی سعادت حاصل کررہے ہیں، کیوں کہ جس لب ولہجہ کے ساتھ وہاں کے بچے قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے وہ عموماً نیٹ اور شوشل ذرائع ابلاغ کے واسطے سے عرب ممالک کے بچوں سے سننے کو ملتا ہے، بلاشبہ وہاں کے بچے ان ہی کی نقل کی کامیاب کوشش کررہے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ قرآن کریم کو عمدہ لب ولہجہ کے ساتھ پڑھنا شریعت میں مطلوب اور ممدوح ہے، کیوں کہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حد درجہ تاکید کی ہے، ایک موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ لیس منا من لم یتغن بالقرآن ، (ًبخاری شریف : حدیث ۷۵۲۷) یعنی جو قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ نہ پڑھے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں، اور حضور سے رشتہ ناتہ کا نہ ہونا ایک مسلمان کے لئے اس سے زیادہ خسارہ کی کوئی بات نہیں ہوسکتی ، اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری روایات سے قرآن کو عمدہ لب ولہجہ اور اچھے انداز سے پڑھنے کی تاکید ملتی ہے، جب کہ خوش الحانی اور بھونڈے لب ولہجہ کے ساتھ نہ پڑھنے پر بہت سخت وعیدیں بھی ہیں ،اس لئے اہل مدارس کو خصوصیت کے ساتھ تجوید کی رعایت اور عمدہ لب ولہجہ پر توجہ دینی چاہئے۔

دوسری چیز جومیرے لئے حد سے زیادہ باعث مسرت رہی وہ یہ کہ بچوں کا آموختہ اور حفظ شدہ پارے بہت پختہ تھے، میں نے جس مسابقہ میں شرکت کی اس کا حال یہ تھا اس دن بھی طلبہ نے اپنا سبق سنایا تھا، اور بلاکسی سبق یا سبق پارہ میں ناغہ کے مسابقہ میں شریک تھے پھر کمال یہ کہ جس کا جتنا پارہ حفظ ہوا تھا اتنے ہی پاروں کے مسابقہ میں وہ شریک تھا، جو عموماً مدارس میں نہیں ہوتا ہے، بلکہ سالانہ اور ششماہی امتحانات میں بھی ہفتوں پہلے ایک تو سبق بند کردیا جاتا ہے پھر امتحان میں وہ تمام پارے شامل نہیں ہوتے ہیں جنہیں طالب علم نے حفظ کیا ہواہے،اس طرف بھی خاصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس وقت جس تیزی کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں حفاظ کرا م ہر سال تیار ہورہے ہیں اسی تیزی کے ساتھ یاد داشت میں کمی کی شکایت عام ہوتی جارہی ہے۔

تیسری نئی چیز جو میں نے دیکھی جس سے مجھے کافی دلی مسرت ہوئی وہ یہ جمعہ کے دن بھی طلبہ از خود ۱۱؍ بجے کے قریب قریب پڑھنے بیٹھ گئے ، اور ان کے بیٹھنے میں کسی استاذ صاحب کی نگرانی یا تقاضہ شامل نہ تھا، میں یہ اس بنیاد پر کہ رہا ہوں کہ جس کمرے میں ہمارا قیام تھا وہاں سے پورا مدرسہ اور مدرسہ کی ایک ایک چیز اور ہر ایک کی ایک نقل وحرکت سی سی ٹی وی کیمرہ کی مدد سے دیکھا جارہا تھا ،اور پھر یہی سلسلہ جمعہ کے بعد بھی دیکھنے کوملا اور اس کی تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سلسلہ بچوں کا خود کا قائم کردہ ہے، وہ اپنے شوق سے بیٹھتے ہیں ، آج کے اس علم سے دوری اور بد ذوقی کے دور میں یہ بلاشبہ بڑی اچھی تربیت کا نتیجہ ہے جس کے لئے میں دل کی گہرائیوں سے ادارہ کے ذمہ داران کے ساتھ ساتھ وہاں کے مخلص اور محنتی تجربہ کار اساتذہ کرام کو مبارکباد پیش کرتاہوں اور دعا کرتا ہوں کہ رب کریم ان محنتوں کو بے حد قبول فرمائے، انہی شبانہ روز محنتوں اور جگر سوز کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ وہاں کے طلبہ عموماً صرف دو سال کی مدت میں قرآن کریم کا ایسا حافظ بن جاتے ہیں جنہیں پھر باضابطہ دور کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اورجس طالب علم کے جتنے پارے ہوتے ہیں وہ تراویح میں اتنے پارے سناتا ہے، آپ کو تعجب ہوگا کہ اس ادارہ میں باضابطہ دور کا کوئی سلسلہ ہی نہیں ، بس سبق کے ساتھ ساتھ ہی سب کچھ کی تکمیل کردی جاتی ہے، اس طرح کے ادارے ماضی قریب میں اور بھی تھے جہاں کے طلبہ کو حفظ کے بعد دور کی ضرورت نہیں رہتی تھی مگر مرور ایام کے ساتھ اب ان اداراوں کی صرف اب تاریخ بن کر رہ گئی ہے، اور اب ان کی جگہ جن دیگر اداروں نے لیا ہے ا ن میں مفکر قوم وملت حضرت اقدس الحاج مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کی خصوصی توجہات عالیہ کا حامل یہ ادارہ بھی شامل ہے، جوکچھ بھی میں نے اس مدرسے میں دیکھایامحسوس کیاہے یہ دراصل حضرت مولانارحمہ اللہ کو قرآن سے جو محبت تھی اسی کانتیجہ ہے، وہ ہمیشہ یہاں تشریف لاتے تھے اورطلباواساتذہ کونصیحت کرتے تھے ـ وہ جہاں بھی جاتے تھے وہاں تعلیم کے ساتھ تربیت پرخاص طورپرزوردیتے تھے ـ میں اس مدرسہ کے ذمہ داران واساتذہ کونیک خواہشات پیش کرتاہوں کہ وہ اپنے رہبر حضرت مولانارحمہ اللہ کے طے کردہ خطوط پرچل کران کے مشن کوآگے بڑھارہے ہیں ـ اس مدرسے میں تعلیم وتربیت کے ساتھ احادیث یادکروانے کابھی خصوصی اہتمام کیاجاتاہے، اس کے علاوہ ضروری عصری علوم مثلااردو،انگریزی وحساب وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہےـ حضرت مولانا کی برکت اور ان سے خاص تعلق کی وجہ سے ہی ان کی وفات کے بعد قرآنی تعلیم کے ماہر اور دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر کے شیخ القراء حضرت قاری صدیق صاحب فلاحی سانسروڈی نے اس مدرسے کو اپنی سرپرستی میں قبول فرمایاہے۔

حضرت مولانارحمہ اللہ کے سینچے ہوئے اس ادارہ میں پہونچ کر قدم قدم پر آپ کی یاد تازہ ہوتی رہی اور بعض مواقع پر میں خود اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا، بلاشبہ اس ادارہ کی تعلیم اور یہاں کی مثالی تربیت حضرت نور اللہ مرقدہ کے لئے صدقہ جاریہ اور آپ کے رفع درجات کا ذریعہ بنے گا، ادارہ کے مہتمم حضرت مولانا نوشیر احمد صاحب دامت برکاتہم نگراں انجینئروقاراحمدخان صاحب اور تمام اساتذہ کرام ،قاری عبدالقادربھاگلپوری، مولانا نظام الدین قاسمی،قاری حسن دیناجپوری، مولاناقاری شریف،قاری منصاراحمد، مولانا قاری محمدعلی ارریاوی ،قاری شاہنواز قاسمی، مولانا قاری فیروزحسینی سیتامڑھی,

مفتی ہارون قاسمی سہرساوی،

قاری عبدالحکیم جھارکھنڈی اور حافظ ارمان وغیرہ نے مجھ ہیچ مداں کے ساتھ بڑے ہی اکرام کا معاملہ فرمایا اور بڑی محبتوں سے نوازا اللہ رب العزت ان سب کا انہیں بہتر بدل عطا فرمائے ، اور ادارہ کو ہر طرح کی ترقیات سے بہرہ وہ کرے ،معاونین ، محبین ، مخلصین عطا فرمائے ، آمین ۔

استاذ جامعہ حسینیہ مدنی نگر کشن گنج بہار

ترجمان وسکریٹری جمعیۃ علما ء کشن گنج بہار

Comments are closed.