موجودہ حالات میں علماء اور خواص کی ذمہ داریاں

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
علمائے کرام امت کے خواص ہیں کیونکہ اس طبقہ کے افراد حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے حقیقی جانشین اور کار نبوت و انسانیت کے اصل ذمہ دار اور محافظ ہیں ۔
سماج کی اصلاح ،ملک و قوم کو صحیح اور درست رخ پر لانے کی ذمہ داری طبقئہ علماء اور حکومت وقت کی ہوتی ہے ۔ اگر علمائے کرام اور حکومت وقت کے اندر فساد آجائے تو پورا ملک اور معاشرہ فساد میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جو علم و فضل میں اپنے معاصرین میں ممتاز و فائق تھے جن کو امت نے سب سے پہلے امیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے یاد کیا ان کا مشہور شعر ہے :
*و ھل افسد الدین الا الملوک*
*و احبار سوء و رھبانھا*
دینی معاملات کو کس نے خراب کیا اور فاسد کیا سوائے حکم رانوں اور علماء سو کے ۔
حضرت عبد بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس شعر کے ذریعہ یہ پیغام دینا چاہتے اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بالخصوص اور انسانی معاشرے میں بالعموم جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو دو طبقوں کی وجہ سے ہوتی ہے ایک اس طبقہ کی وجہ سے جو کسی ملک میں کسی نہ کسی حیثیت سے حکم رانی یا ذمہ داری کے منصب پر فائز ہوتا ہے ۔ دوسرا علمائے کرام کا طبقہ جس سے صرف علماء دین ہی مراد نہیں، بلکہ اس سے مراد معاشرے کے وہ تمام لوگ ہیں جو کسی اعتبار سے اپنے ملک و قوم اور معاشرے کی علمی و فکری رہ نمائ کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور قومی و ملی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ گویا امت یا قوم کے سیاسی ،فکری ،ملی اور دینی قائدین و رہنما اگر اچھے ہوں اور درست راستے پر گامزن ہوں تو پھر امت درست راستے پر گامزن رہتی ہے اور اگر یہ طبقے راہ راست سے ہٹ جائیں ،صحیح روش اور ڈگر سے بہک جائیں تو نتیجتا امت بھی راستے سے ہٹ جاتی ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
*خیار ائمتکم الذین تحبونھم و یحبونکم و تصلون علیھم و یصلون علیکم و شرار ائمتکم الذین تلعنونھم و یلعنوکم و یبغضونکم و تبغضونھم*
*ترجمہ / تمہارے عمدہ اور بہترین ائمہ اور رہبران قوم وہ لوگ ہیں ،جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہوں ۔ تم ان کے لئے دعائے خیر کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعائے خیر کرتے ہوں ۔ اور بد ترین اور ناہنجار و نااہل ائمہ وہ ہیں کہ تم ان پر لعنتیں بھیجو ،وہ تم پر لعنتیں بھیجیں ۔وہ تم سے نفرت کریں، تم ان سے نفرت کرو* (محاضرات تعلیم از ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم) ۔
اس *حدیث* میں *ائمہ* کا لفظ کسی خاص شعبے کے رہنما اور قائدین کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے ،بلکہ ہر اس فرد کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ جو امت کی قیادت و سیادت کی خدمت انجام دے رہا ہے اور امت میں خواص کا درجہ اور قیادت و امامت کا مقام رکھتا ہے ۔ چاہے وہ کسی شعبہ اور ادارے سے تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی حیثیت اور درجہ میں قوم کی امامت کرتا ہو۔ چاہے وہ تعلیم کی امامت ہو ۔ مسجد کی امامت ہو ،فکر کی امامت ہو سیاست کی امامت ہو ۔ خدمت خلق اور ملی کاز کی امامت ہو یا پھر فکر و نظر کی امامت ہو ۔ اگر یہ امامت مخلص لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو لوگ کے امت کے لئے صحیح درد اور کڑھن رکھتے ہیں، امت کی فکر کو اپنے ذاتی مفادات سے اٹھ کر اوڑھ لیتے ہیں اور ہوی و ہوس اور نفسانیت ،بزدلی و کم ہمتی سے اپنے کو بچا لیتے ہیں تو امت ان کے اخلاص و للہیت کی قدر کرتی ہے اور اس کی وجہ سے ان کے لئے دعا گو ہوتی ہے ان سے محبت کرتی ہے اور وہ امت سے محبت کرتے ہیں ۔ ایسی قیادت اور ایسی قیادت کے ماننے والے پھر دنیا میں اپنا نام روشن کرتے ہیں اور خدا کے حضور بھی سرخ رو ہوتے ہیں ۔
برا نا مانئے گا میں بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہوں اور اس طبقہ کی ہی نمائندگی کرتا ہوں ۔ بتائے یہ سچ ہے کہ نہیں؟ کہ آج امت پر جو حالات آئے ہیں ۔ سماج و معاشرہ جو بگڑا ہے ۔ پریشانیاں جو آئی ہیں ۔ ماحول جو خراب ہوا ہے زمین جو ہمارے لئے تنگ کر دی گئی ہے اور ہم جو مغلوب مقہور ہوگئے ہیں اس کی وجہ ہم ہیں یا نہیں؟ یہ بگاڑ و فساد ہماری نا اھلی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ہے یا نہیں؟ خواص کی اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اور بے توجھی کا اس میں دخل ہے یا نہیں؟ ہم نے اپنے منصب و قیادت کا غلط استعمال کیا ہے یا نہیں؟ ہماری ضد ہٹ دھرمی انانیت اور ناتجربہ کاری کا اس میں دخل ہے یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام وجوہات و اسباب ہیں ہماری ذلت و رسوائی کے ،ہماری ناکامی اور محرومی کے ۔ ہماری مغلوبیت و مظلومیت کے ۔ اور ہم ہیں کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہر گروہ جماعت اور طبقہ صرف اپنی حیثیت بتانے اور قد کو اونچا کرنے میں مصروف ہے اور اپنے ہی کو مسلمانوں کا نمائندہ اور ترجمان ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے ۔
آج ہم نے اپنے ماتحتوں اور متبعین کی ایسی تربیت کی ہے وہ ہم کو نقد و تبصرہ اور تنقید سے بالا تر سمجھیں اور ہماری ہر تحریر و تقریر ہر انٹرویو اور ڈبیٹ کو سو فیصد درست سمجھیں چاہیے وہ صریح طور پر شرعیت کی تعبیر و اصطلاح کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ، چاہے اس سے وحدت ادیان کی بو ہی کیوں نہ آئے ؟۔ وہ حقائق کو منھ ہی کیوں نہ چڑھا رہا ہو ۔ چاہے وہ کسی طرح بھی غیر ذمہ دارانہ اور کم علمی پر مبنی بیان ہی کیوں نہ ہو ۔
آج ان قائدین کے متبعین اور پرستاروں کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے قائدین کے خلاف صحیح اور جائز تنقید سننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اپنے رہنما کی غلط اور غیر ذمہ دارانہ بیان کو نہ صرف صحیح اور درست ٹھہراتے ہیں بلکہ نقد و گرفت کرنے والے کو کافر اور فاسق و زندیق ٹھراتے ہیں ۔ ان کم ظرفوں اور نااہلوں کو پتہ ہی نہیں کہ بھول چوک اور رائے اور فکر کی غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے انسان خطا و نسیان کا مرکب و مجموعہ ہے عقلمند اور دانا انسان وہ ہے کہ اگر اس سے کوئ علمی یا فکری یا کسی طرح کی غلطی اور بھول ہو تو وہ اس کو مانے اسکو تسلیم کرے نہ کہ ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے ۔
*حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ* نے جب یہ دیکھا اور محسوس کیا کہ لوگ مہر کے سلسلہ میں افراط و تفریط کے شکار ہوگئے ہیں تو انہوں ارادہ کیا کہ مہر کی کوئ حد بندی کر دی جائے کہ اس سے زیادہ کوئی مہر نہ باندھے آپ نے جمعہ کے خطبہ میں جب اس کا اعلان کیا تو ایک بوڑھی عورت کھڑی ہوئی اور بھرے مجمع میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوکا اور گرفت کی کہ آپ مہر کی حد بندی کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟ آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ قرآن تو یہ کہہ رہا ہے کہ کوئ اپنی بیوی کو مہر کے طور پر قنطار عظیم یعنی مال خطیر بھی دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فورا تنبیہ و تنبہ ہوا اپنی غلطی کا احساس کیا اور فرمایا اگر یہ بوڑھی عورت نہ ہوتی تو آج عمر ہلاک ہوجاتا ۔
آج ہمارے قائدین کا یہ مزاج کیوں نہیں ہے؟ ۔ عوام میں یہ جرات و ہمت کیوں نہیں ہے؟ لوگوں کا یہ ذوق و مزاج کیوں نہیں بن پایا ہے کہ جائز اور درست تنقید کو سنیں اور برداشت کریں؟ ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث نقوش سیرت اور حیات صحابہ کو ہم ڈھنگ سے پڑھتے ہی نہیں ہیں ۔ اس حوالے سے یا تو ہم کورے ہیں ۔ یا پھر صرف تفریح طبع اور ذھنی عیاشی کے لئے صرف وہ مطالعہ ہے ۔
موجودہ حالات اور مشکلات کا حل قران و سنت کی روشنی میں اور حیات صحابہ کے مطالعہ کے مطابق صرف یہ ہے کہ ہم ماضی کی طرف لوٹیں اور دور نبوی اور دور صحابہ کے نمونہ کو دہرائیں ۔ بحیثیت خواص اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں کیونکہ جب تک خواص اپنی اصلاح نہیں کریں گے وہ اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھیں گے وہ اپنے اختلافات کو ختم نہیں کریں گے اور جب تک وہ باہم متحد نہیں ہوں گے حالات کبھی نہیں بدلیں گے تقدیر کبھی نہیں بدلے گی۔ الا یہ کہ خدا کی ہی مرضی ہو جائے ۔ امید کہ ان باتوں پر ہم سب توجہ دیں گے اور بحیثیت علماء و خواص ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین
Comments are closed.