شعب ابی طالب اور کشمیر کے قیدی!

محمد صابرحسین ندوی

Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043

واقعہ یہ ہے کہ اسلام ایک ایسا زرخیز پودا ہے، جوہر تراش وخراش پر نئی نئی کونپلیں اور شاخیں دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ،اسے خواہ دبایا جائے؛ لیکن روئے ارض کی چھاتی پھاڑ کر تپتی ریت سے بھی نکلنے کی استطاعت رکھتا ہے ،چنانچہ اہل مکہ کے عین مظالم کے درمیان اصحاب اولوالعزم حضرت حمزہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہما مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، جن کی وجہ سے اسلام کو بھی قوت نصیب ہوئی اور اہل مکہ کو یہ احساس ہونے لگا تھا؛ کہ صنم پرستی، رسم و رواج اور جاہلی اقدار کا خاتمہ ہے، لہذا اس خدشہ سے بچنے کیلئے رؤسائے مکہ نے چچا خواجہ ابو طالب سے اپنے بھتیجے کو باز رکھنے کی بار بار درخواست کی، یہاں تک کہ قیادت، دولت اور عزت کے ساتھ ہر قسم کی آسائش کا بھی لالچ دیا؛ لیکن کچھ نہ ہو سکا، بلکہ آپ نے یہاں تک فرمادیا تھا: اگر میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج بھی لا کر رکھ دیا جائے تب بھی میں اس کام سے بازنہ آؤنگا۔ اہل مکہ نے یہ دیکھ کربالآخر بعثت نبوی کے ساتویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور بنو ہاشم کا بائیکاٹ کرنے کی سازش کی اور متفقہ طور پر ایک معاہدہ طے کیا گیا؛ جس میں یہ تھا کہ:بنو ہاشم سے نہ کوئی شادی بیاہ کرے،نہ خریدوفروخت اور نہ ہی کسی قسم کا میل جول رکھے، گویا انسانی زندگی کے سارے کمیونیکیشن اور اس کے ذرائع کاٹ دئے گئے تھے، کلی طور پر شٹ ڈاؤن کردیا گیا تھا؛ جب تک کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے لئے حوالے نہ کردیں، اس معاہدہ کو بغیض بن عامر بن ہاشم نے لکھا اور پھر کعبہ پر لٹکا دیا گیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورے خاندان اور اہل ایمان کے ساتھ ایک وادی "شعب ابی طالب” میں محصور ہوگئے، جہاں پر آپ نے تین سال قید با مشقت گزاری، نوبت یہاں تک آئی کہ بعضوں نے طلح (ایک قسم کا درخت) کی پتیاں کھا کر زندگی گزاری، حضرت سعد بن وقاص بیان کرتے ہیں :ایک دفعہ سوکھاہوا چمڑا ہاتھ آیا، جسے آگ پر بھون کر،پانی کے ساتھ کھایا۔ابن سعد کہتے ہیں: جب بچے بھوک سے بلکتے اور آواز بلند ہوتی تو کفار مکہ سن کر خوش ہوتے، لیکن کہتے ہیں انسان کا دل اگر زندہ ہے تو وہ ظلم برداشت نہیں کر سکتا، چنانچہ اس ظلم کے خلاف بعض غیرت مند کفار اور صاحب ضمیر تلملاتے اور اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ان میں سرفہرست ہشام مخزومی، عبد المطلب کے نواسے زبیر، مطعم بن عدی،بحتری بن ہشام اور زمعہ بن اسعد کا نام آتا ہے، ان لوگوں نے ابوجہل اور ابولہب کی مخالفتوں کے باوجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسلح، ہتھیار بند ہوکر بنو ہاشم کو اس وادی سے نکال لائے، بقول سعد: یہ دس نبوی کا واقعہ ہے۔ (زادالمعاد:۲؍۴۶)
وہی شعب ابی طالب کا دوسرا باب کشمیر ہے، ہمیں امید ہے کہ وہاں کی سرزمین خوب لالہ و گل کھلائے گی اور مظلومیت میں اسلام کا علم بلند رکھے گی_ لیکن ابھی وہاں کے مسلمان قیدی اپنے اسلام پر ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں، خوفناک خبریں موصول ہورہی ہیں، بچوں کو نابینا کردیا گیا، نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، وے بلک رہے ہیں، مر رہے ہیں، مدد کی گہار لگا رہے ہیں، لیکن پچیس کڑور مسلمانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے، ایسا خوف ہوتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں: ان میں اہل کفار جیسا دل بھی نہ رہا، وہ کفر پر تھے تب بھی انسانیت میں مرنے اور مارنے کو تیار تھے، ہم اسلام سے معزز ہوئے، کلہ لاالہ کا اقرار کیا، ایک دوسرے کی مدد کو مذہبی فریضہ سمجھا؛ پھر بھی ہم نے اپنے ہی بھائیوں کو قتل گاہ میں قتل ہونے کیلئے چھوڑ دیا ہے، بلکہ جواز تک دیدیا ہے، نام نہاد ملا____ یہ کہتے پائے گئے کہ کشمیریوں نے قتل گاہ خود منتخب کی ہے، ہائے بزدلی__! ہائے ندامت! ہائے مومنین ___! کوئی ان کا سہارا نہیں۔ کوئی بولتا نہیں۔ سب مجسم تصویر بن کر اور بے حس لاش بن کر موت کا دنگل دیکھ رہے ہیں۔ وقت ہے کہ ہم اپنے ایمان کا جائزہ لیں_ اپنے دھڑکتے دل کی دھڑکن سنیں_! کیا خبر کچھ ہے بھی کہ نہیں!!!!

03/10/2019

Comments are closed.