کشمیر پر ہماری بے حسی!!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
کشمیر کے سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ(اگر یہ جملہ نازیبہ لگتا ہو لیکن کہنے دیا جائے) امت مسلمہ بک گئی _ یومیہ مظالم دیکھنے کے باوجود سبھی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں، جن کیلئے اپنے پڑوس کو بھوکا چھوڑ کر خود کھالینا بھی بد تمیزی اور ادبی سکھایا گیا تھا، وہ تو اب بھوکوں تڑپتا دیکھ رہے ہیں؛ لیکن خود کو شکم سیر کئے ہوئے ہیں، ان کے بھائیوں پر انسان سوز مظالم ہو رہے ہیں، ان کی بہنوں پر پہاڑ توڑے جارہے ہیں، ناکردہ گناہ میں قید و بند کی سزائیں جھیل رہے ہیں، مگر ہم آزادی کا پٹہ گلے ڈالے اترائے گھوم رہے ہیں، پیشانی پر کوئی لکیر نہیں، دل و دماغ پر کوئی اثر نہیں، حیران کن بات تو یہ ہے کہ ظلم بالائے ظلم کرتے ہوئے سفید پوشوں کی منافقت اور نافعیت کی سیاست عروج پر ہے، حکومت کے تلوے چاٹنے اور اپنی انانیت و برتری ثابت کرنے میں سبقت لئے جارہے ہیں، جماعتیں اور جمعتیں عموما سرد مہری کا شکار ہوگئی ہیں۔
ایسا لگتا ہے انہیں کوئی سانپ سونگھ گیا ہے، کسی غیر مرئی طاقت نے انہیں دبوچ لیا ہے، کسی سفلی طاقت کے شکار ہوگئے ہیں؛ بلکہ کیا لکھا جائے، اسے لکھتے ہوئے قلم پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے؛ کہ وے تائیدی پالیسی کے ساتھ ظلم اور ظالم کے ہمنوا بن گئے ہیں، اپنے ضمیر کی بولیاں لگا بیٹھے ہیں، سر بازار خود کو بیچ دیا ہے، خدا جانے وہ اس مردہ ضمیر کے ساتھ کیسے رات گزارتے ہیں؟ ان کی صبح کیسی ہوتی ہے؟ وہ آئینہ کا سامنا کیسے کرتے ہیں؟ وہ قرآن و سنت کو کیسے پڑھتے ہوں گے؟ یہ دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سبھی بے دل ہوگئے ہیں، ہم بھی بے درد ہوگئے ہیں، ہماری آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا ہے، وہ بلکتی اور سسکتی چیخوں کو سن کر چھلکتی نہیں ہیں، روتی اور گڑ گڑاتی نہیں ہیں، ہمارے جسموں کو جیسے فالج مار گیا ہے، بلکہ اس سے زیادہ خطرناک یہ کہ ہماری عقلوں کو ہوا لگ گئی ہے، اسے اپنوں کے غم کا، مصیبت کے ماروں کا اور بے گناہی کی سزا کاٹ رہے معصوموں کا احساس تک نہیں ہوتا____
آہ_ میرے مولا___!!! ہم قریب رہ کر کچھ نہیں کرتے اور بہت سے اہل دل دور رہ کر بھی کشمیر کی مظلومیت پر رو رہے ہیں، وہ عالمی برادری کو جگانے کا کام کر رہے ہیں، احتجاجات کئے جارہے ہیں، لکھ رہے ہیں، بول رہے ہیں، کرفیو ہٹانے اور ماحول سازگار بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ صدا لگا رہے ہیں، اگرچہ رائیگاں ہیں؛ لیکن جو بن پڑ رہا ہے کر رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر بجھا نہ سکیں تو کیا ہوا؟ بجھانے والوں میں شریک تو ہوجائیں، وہ اس خاتون کی طرح ہیں جو یوسف کو بازار میں اپنے کھوٹے سکے سے خریدنے چلی ہے؛ صرف اس لئے کہ وہ بھی خریداروں میں شمار ہوجائے، اگر یہ بھی نہ ہوا تو نہ جانے مستقبل میں ہمیں تاریخ کس لقب سے یاد کرے گی، پتہ نہیں یاد کرے گی بھی یا نہیں کیونکہ جھاگ کو کون یاد کرتا ہے، وہ تو بہاو میں بہہ جاتا ہے، اپنا وجود خود ہی ختم کر لیتا ہے۔
وقت اور حالات دیکھ کر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر یاد کیا بھی جائے گا تو ان صفحات پر کشمیر کی بے بسی سے زیادہ ہماری بے حسی اور ہماری قیادت کی بے پرواہی؛ بلکہ غداری روشن رہے گی، نسلیں پڑھیں گی کہ کس طرح فرعون وقت کو درباری مل گئے تھے، حق کو گڈ مڈ کرنے والے اور تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر، بے جا مباحثہ میں الجھ کر اور سب کو الجھا کر امت کو گمراہ کرنے والے لوگ مل گئے تھے، جو نہ صرف اپنوں کے قدموں پر تیشہ چلا رہے تھے؛ بلکہ اپنی تاریخ بھی بیک وقت مسخ کر رہے تھے، ماضی سے متنفر اور حال سے ناامید کر رہے رہے تھے اور مستقبل کا خوف دلا کر پوری امت کو سیاہ اور عمیق غار میں دھکیل رہے تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے دل کا حال کیا ہے؛ لیکن ظاہر بینی بھی یقینا بہت کچھ ادراک کر جاتی ہے، اور اس ادراک پر جو کہہ رہی ہے اگر وہ سچ ہے، تو خدا کے نزدیک ایسوں کا انجام مناسب نہیں۔
06/10/2019
Comments are closed.