طوفانِ ارتداد کی آمد کا اندیشہ (قسطِ اوّل)

شاداب ظفر میرٹھی
حضرت انسان پر اللہ تعالی کے ان گنت احسانات اور انعامات ہیں ان تمام نعمتوں میں سب سے عظیم الشان نعمت”ایمان” ہے، روئے زمین پر اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت موجود نہیں، دنیا کی ہر نعمت و لذت، آسائش و سہولت، آرام و راحت چار روزہ اس مختصر زندگی کے ساتھ ختم ہوجائےگی؛ لیکن وہ نعمت جس کا ثمرہ دنیا میں سعادت واطمینان ہے اور اس کا اثر آخرت تک باقی رہتا ہے وہ اسلام کی ہدایت ہے اور وہی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنےخاص بندوں کو نوازتا ہے۔ اسی اہمیت و منزلت کے پیش نظر اللہ نے اس نعمت کو اپنی طرف منسوب کرکے اسے دوسری نعمتوں کے مقابلے میں شرف بخشا اور فرمایا: "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین اور اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدة: 3)
دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے :
بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ترین دین اسلام ہے!
(سورۃ آل عمران،آیت 19)
اسی نعمت پر اپنے خصوصی احسان کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "در اصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو۔” (الحجرات:) اس سے بڑی نعمت انسان پر اس منعم حقیقی کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے،وقتی تکلیفوں اور عارضی مصیبتوں سے دائمی نعمتوں اور ابدی راحتوں کی طرف بلاتاہے اور اسے اس دین کی رہنمائی کرتاہے جسے اس نےتمام ادیان و مذاہب پر فوقیت اور غلبہ دیا ہے۔ نعمتِ ایمان کا حامل گر چہ حالات سے دوچار اور حوادث سے نڈھال ہو؛ مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی عطاکریں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے (سورۃ النحل،آیت 97) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیک عمل کرنے والے ہر مرد و عورت کو دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کرنے اور آخرت میں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے؛ لیکن اس شرط پر کہ عمل کرنے والا، خواہ مرد ہو یا عورت، نعمتِ ایمان سے سرفرازہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا و آخرت کی کامرانی و کامیابی کے لیے ایمان ہی بنیادی حیثیت رکھتاہے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ کے بہ قول :
اسلام کے نقطۂ نگاہ سے ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے، وہ ہماری سیرابی کا اصلی سرچشمہ ہے، جس کے فقدان سے ہمارے کاموں کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں رہتی، کیوں کہ وہ دیکھنے میں تو کام معلوم ہوتے ہیں مگر روحانی اثر و فائدے سے خالی اور بے نتیجہ ہوتے ہیں، خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضامندی کا حصول ہمارے اعمال کی غرض و غایت ہے، یہ نہ ہو تو ہمارے تمام کام بے نظام اور بے مقصد ہوکر رہ جائیں، وہ ہمارے دل کا نور ہے، وہ نہ ہو تو پوری زندگی تیرہ و تاریک نظر آئے اور ہمارے تمام کاموں کی بنیاد ریا، نمائش، جاہ پسندی، خود غرضی اور شہرت طلبی وغیرہ کے دنیوی جذبات اور پست محرکات کے سوا کچھ اور نہ رہ جائے۔ اس تمہیدی گفتگو سےایمان کی عظمتِ شان اور جلالتِ مکان کا اندازہ لگانا آسان ہوگیا ہوگا، مختصر یہ کہ جہاں ایک طرف ایمان لانا اور دائرۂ اسلام میں داخل ہونا، دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ، اندھیروں سے روشنی میں آنےکاسبب، دوزخ سے چھوٹنے اور جنت میں داخل ہونے کا وسیلہ ہے، وہیں دوسری طرف ایمان کے قلادے کو گلے سے نکال پھینکنا، خود کو زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا، نعمتِ ایمان کی ناقدری کرنا اور ارتداد کی راہ اختیار کرلینا، اتنا ہی بڑا جرم اور موجب مواخذہ عمل ہے۔
کسی شاعر نے اسی کی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ہے :
ایمان وہ ہے شجر جس کو چاہیے خونِ جگر
اور ہم ہیں بے فکر
اگر اب بھی نہ سنبھلیں تو یارو جاؤگے کدھر؟
اسلام ایک ابدی اور فطری مذہب ہے، جس نے پوری دنیا کے انسانوں کو پیدائش سے لے کر اختتامِ حیات تک ہر چیز کے بارے میں رہنمائی کی ہے اسلامی تعلیمات میں کج فہمی یا غیر ضروری عناوین سرے سے موجود ہی نہیں ہیں؛
وہ اپنے نام لیواؤں سے دمِ آخر تک دین قیم پر ڈٹے رہنے اور اس پر جمے رہنے کا حکم دیتا ہے، اور اسلام کی اور مسلمان کی اصل کامیابی بھی یہی ہے کہ اس میں آخری وقت "موت” کا اعتبار کیا جاتا ہے!
"الاعتبار بالخواتیم”
ساری زندگی کیسی گزاری؟
اعمال کیسے کیے؟
افعال کو کس طرح انجام دیا؟
تعلیمات اسلام پر کتنا عمل درآمد کیا وغیرہ وغیرہ
یہ سب بعد میں معلوم کیا جائےگا!
لیکن پہلے مسلمان تھے یا نہیں؟
اسلام دل میں اور اعتقاد میں راسخ تھا یا نہیں؟
اسی لئے کسی مسلمان نے اگر دین اسلام کو چھوڑا، اس سے روگردانی کی،
اور ارتداد میں ملوث ہوگیا تو اسلامی زندگی میں کی ہوئی ساری محنت رائیگاں ہوجائے گی؛
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ حق بات سے پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہیں، باوجودیکہ ہدایت ان کے سامنے خوب واضح ہوچکی تھی، انہیں شیطان نے پٹی پڑھائی ہے اور انہیں دور دراز کی امیدیں دلائی ہیں –
﴿سورۃ محمد: آیۃ ۲۵﴾
جاری_______
Comments are closed.