طوفانِ ارتداد کی آمد کا اندیشہ (قسط دوم)

تحریر :شاداب ظفر

اسلام اس بات پر خصوصی توجہ دیتا ہے کہ مسلمانوں کو الحاد و ارتداد سے حتی المقدور محفوظ رکھا جائے؛ اس کے اسباب و علل پر غور و فکر کرکے دین سے متصادم اور مسلمان کو خدا کے وجود سے شک میں مبتلا کرنے والی تمام اشیا کو پاش پاش کردیا جائے۔

اور یہ کام ہر مسلمان اور مؤمن کا ہے کہ وہ ارتداد کے طوفان سے نبرد آزما ہو اور اس کے سامنے سینہ سپر ہوکر اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرے۔

کیوں کہ اگر اسلام سے متصادم اور مسلمانوں کے ذہن کو متذبذب کرنے والی اشیا کا جب تک تعاقب نہیں ہوگا ان کی نشاندہی اور اس سے حفاظت کا سامان مہیا نہیں کرایا جائے گا تو ارتداد ہمارے ذہن، گھر، اسکول، کالجز و یونیورسٹیز حتی کہ مدارس و جامعات کے پختہ فکر طلبا بھی اس سے مامون و محفوظ نہیں ہوں گے؛ ملک و ملت کا کوئی بھی شعبہ اس کے سخت وار سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
ایک فطری امر یہ بھی ہے کہ ہر وہ ملک جس میں انسان بستا ہے، اس سے اس کو ابدی اور دائمی محبت ہوتی ہے، اس میں جینا مرنا اس کا خواب ہوتا ہے، اور سرحدوں کے بٹوارے کے بعد اپنا آبائی وطن ہر ملک کے باشندے کا اصل پناہ گاہ مانا جاتا ہے؛ کیوں کہ ان سرحدوں کے جال پھیلنے کے بعد دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی پناہ گزین کو خوش آمدید یا مرحبا نہیں کہاجاتا۔
حالات بایں جا رسید کہ اب تو بہت کم ممالک ہی دوسرے ممالک کے شہریوں کو پناہ دیتے ہیں۔
جس طرح کی شہریت مسلمانان ہند کو آباؤاجداد کی موجودگی کی بنیاد پر ملک عزیز ہندوستان میں میسر ہے، اسی طرح تمام مذاہب کے ماننے والوں کو میسر ہے؛ لیکن موجودہ صورتِ حال میں ایک خاص مذہب اور شناخت کے لوگوں کو اس شہریت عامہ سے محروم کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، جس سے ارتداد کی زور آور آندھی کا خطرہ قریب معلوم ہوتا ہے۔
شہریت ترمیمی بل جس کو موجودہ مودی سرکار مسلمانوں کے علاوہ سب پر لاگو کرنے کی خواہاں نظر آرہی ہے، اور ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ اس بل پر اپنا مشروط اعلانیہ دے چکے ہیں۔

جب سب کو معلوم ہے کہ وہ بل مسلمانوں کے سوا تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگا تو مسلمان اس ملک میں رہنے کی خاطر اپنے دین و دھرم سے سمجھوتا کرلیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا؛ مسلمانوں کی مجموعی آبادی اور ان کی دینی و عصری تعلیم و تربیت پر اگر سچر کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں نظر ثانی کریں تو دلتوں سے بھی نچلی سطح پر ان کی زندگیاں گزر رہی ہیں۔
عقائد و شعائر اسلام سے ناواقفیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے، علم کے محافظین اپنی پناہ گاہوں میں علم کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں، اور ایک عامی مسلمان دین کی بنیادی معلومات سے بھی ناواقف ہے؛
دین، اسلام، مذہب اور غیر مذاہب کا ان کے نزدیک کوئی خاصہ فرق نہیں ہے؛ ضروریات دین سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے۔

برائے نام وہ مسلمان باقی ہیں تو کیا؟
ان سے ان سخت حالات میں جب ان پر این آر سی اور دیگر وجوہات کے بنیاد پر غیر ملکی ہونے کا خوف منڈلائے گا،
تو ان امیوں سے ہم کیا امید کر سکتے ہیں؟

امید وہی ہے جو ہر معقول انسان کو ہے کہ دین اسلام کو خیرباد کہتے ہوئے وہ یک لحظہ ایمان و اسلام کو خیرباد کہتے ہوئے توقف نہیں کریں گے؛
اور اس کی ذمہ داری ہم جانکاروں اور دین کے ٹھیکیداروں کے کندھے پر آئےگی!
کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث ہماری نگاہوں سے نہیں گزری جس میں فرمایا تھا:
"فاقہ انسان کو کفر کے دہانے تک لے جاتا ہے۔”
یعنی دینِ اسلام سے منہ پھیر لینے پر بھی مجبور کردیتا ہے۔

Comments are closed.