فنکار اور فن شناس کا گہرا ربط__!

محمد صابرحسین ندوی

Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043

کوئی شئی کتنی ہی قیمتی ہو؛ لیکن اس کی قدر کرنے والا کوئی نہ ہو، تو وہ بے قیمت ہے، سونا تبھی سونا ہے جب اسے سونا سمجھنے والا کوئی ہو، دنیا اسی ظاہری قدر و قیمت کا مظہر ہے، خدا تعالی دل دیکھتا ہے؛ لیکن دنیا ظاہر دیکھتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اگر دل درست ہو تو ظاہر بھی پر کشش ہوجاتا ہے۔ بہر حال کچھ ایسی ہی صورت حال فن اور فنکار کے تعلق کا ہے، کوئی شاعر ہو، ادیب ہو یا کوئی بھی ماہر فن اگر اس کا فن صرف اس لحاظ سے اچھا ہو کہ بس اسے اچھا لگتا ہے، اور اس میں اس کی مرضی شامل ہے، تو یہ فن اگرچہ اعلی سطح پر ہو تب بھی کوئی خاص بلندی حاصل کر جائے، یہ ضروری نہیں؛ لیکن اگر کوئی فن اور فنکار اپنے فن شناس احباب کا بھی خیال رکھتا ہو، وہ اپنے فن کو یوں پیس کرتا ہو کہ اسے دیکھنے والا، پڑھنے والا اس میں خود کو پائے، خود کو اس کے کردار میں، اس کی کہانی میں اور انداز گفتگو میں کسی تسبیح کے دانے کی طرح پرویا ہوا پائے، تو یقینا وہ فنکار کامیاب ترین فنکاروں میں شمار کیا جائے گا؛ مگر دقت یہ ہے کہ اکثر فنکار فن شناس کی واہ واہی اور داد و دہش میں فن کا معیار گرادیتے ہیں اور فن کی اہمیت کے بجائے وہ تالیوں کی گرج کو ہی اصل سمجھ بیٹھتے ہیں، یہ درست نہیں ہے، اس میں دونوں کا نقصان ہے اور اس سے بڑھ کر اس فن کا نقصان ہے، جو ایک طویل ترین تاریخ کا سفر کر کے ہم تک پہونچا ہے، اس میراث کے ساتھ گویا غداری ہے، بے ایمانی اور بد دیانتی ہے، اس سلسلہ میں متوسط راہ اختیار کرنی چاہئے، اور بہتر ہے کہ میر ثانی جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم کا انداز اختیار کیا جائے، جو فنکار اور فن شناس میں اس قدر تال میل بٹھاتے ہیں، کہ گویا دونوں ایک دوسرے میں سما گئے ہیں؛ لیکن کسی کا نقصان نہیں بلکہ فن کو امتیازی شان حاصل ہے، ذرا اس نایاب راستے کے بارے میں پڑھئے، آپ رقمطراز ہیں:
” ____ فنکار اور فن شناس میں گہرا ربط ہے، مگر یہ رابطہ فن کو پست بھی کرتا ہے اور بلند بھی۔ یہ فن کو بگاڑتا بھی ہے اور سنوارتا بھی ہے، کہنے والا اگر سننے والے کے ذوق کا اندھا بن کر اتباع کرتا ہے، تو فن کی سطح آہستہ آہستہ پست ہوجاتی ہے، اس لئے کہ سننے والا ہمیشہ اس بات کا آرزو مند ہوتا ہے کہ اسے فکر نہ کرنی پڑے اور فکر سے ذوق پر جلا ہوتی ہے، ورنہ زنگ آلود ہوتے ہوتے بالکل کند ہوجاتا ہے۔ اور اگر فنکار سننے والوں کو اندھا سمجھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے، تو خود فنکار کی شاخ فکر ناتراشیدہ ہوتی جاتی ہے۔ فنکار اور فن شناس دونوں ایک دوسرے کے ذوق کی تراش خراش کرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے معلم اور متعلم ہیں۔ یہ بڑا نازک رابطہ ہے۔____ میں سننے والوں کے ذوق سے بے نیاز اور بے پرواہ نہیں رہا؛ لیکن میں ان کی طرف کھنچا نہیں، بلکہ انہیں اپنی طرف کھینچنے کی ہمیشہ کوشش جاری رکھی اور یہ کوشش کامیاب ہے۔ اب وہ آسانی سے سمجھنے لگے ہیں کہ میرے اشعار میں لفظوں کا ایک تو سطحی مفہوم ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ایک دوسرا مفہوم بھی ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگے کہ سادگی صفائی اور سہل ممتنع میں بھی تہہ داری اور گہرائی ہوتی ہے ____ وہ یہ ماننے پر مجبور ہوئے کہ قدامت میں بھی جدت ہوسکتی ہے۔ وہ اعتراف کرنے لگے کہ غم جاناں اور غم دوراں کو الگ الگ خانوں میں رکھنے کی ضرورت نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کا بدل بھی ہو سکتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کا عکس، پرتو اور ترجمان بھی ہو سکتے ہیں۔” (وہ جو شاعری کا سبب ہوا_ ۱۷۰_۱۷۱)

08/10/2019

Comments are closed.