صلح حدیبیہ کی ایک شرط اور این آر سی

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

آئے تو ہیں بازار میں کچھ اہل وفا اور
اب بھی سبب گرمی بازار ہمیں ہیں

سنہ چھ ہجری میں تاریخ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک عظیم موڑ آیا، وطن کے بچھڑے ہوئے، اور کعبہ مکرمہ کی محبت کے ستائے ہوئے اپنے مرکز کی طرف صرف اس ارداے سے بڑھے کہ جلال الہی کا دیدار کیا جائے، اور برسوں سے پڑی دل کی پیاس بجھائی جائے؛ لیکن کفار قریش کو یہ منظور نہ تھا، وہ جنگ پر آمادہ ہوگئے، اور پورے ساز و سامان کے ساتھ مکہ سے نکل گئے، مسلمانوں نے تکبیر و تہلیل کے دوران مقام حدیبیہ پر پڑاو ڈالا تھا، ماحول کا تقاضہ تھا کہ ابھی آگے نہ بڑھا جائے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاسوسوں کو آگے بھیج دیا، تاکہ اہل مکہ کی خبر لے کر آئیں؛ خبر رساں نے غیر مطمئن خبر دیا، آپ نے بہت زیادہ فہم و فہمائش کی کوشش کی، انہیں سمجھایا کہ جنگ پر نہ ابھاریں، اور قاصدوں کے ذریعے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم صرف عمرہ کرنے آئے ہیں، ہمارا راستہ چھوڑ دیں؛ ویسے بھی قریش کی کمر ٹوٹ چکی ہے، پے درپے جنگ سے وہ لاچار ہوگئے ہیں، اور اگر نہیں مانتے تو ہم فیصلہ کن جنگ کیلئے تیار ہیں۔
اتنے میں ہی قریش نے سہیل نامی ایک معزز شخص کو بھیجا کہ بات بڑھائی جائے، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام سے نیک فال لیا، باتیں ہوئیں اور یہ طے پایا کہ اس سال عمرہ نہ کریں؛ بلکہ آئندہ سال آئیں، نیز صرف ایک تلوار کے ساتھ آئیں_ اور تین دن کا قیام کریں۔ اس معاہدہ کو صلح حدیبیہ کہتے ہیں، اس میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ اگر اہل مکہ میں سے کوئی مسلمان ہوجائے اور وہ مدینہ آجائے تو اسے لوٹانا ہوگا، اور اگر کوئی مدینہ سے مکہ آجائے تو اسے نہیں لوٹایا جائے گا____ یہ شق بہت ہی زیادہ گراں کن تھی، لیکن وقت کی مصلحت تھی؛ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی مان لیا، ابھی یہ معاہدہ مکمل بھی نہ ہوپایا تھا؛ کہ سہیل ہی کے بیٹے حضرت ابوجندل جو مسلمان ہونے کی وجہ سے قید و بند کی سزا کاٹ رہے تھے، پابہ زنجیر ہو کر آپ کے سامنے ڈال دیا اور مدد کا مطالبہ کیا، سہیل ناراض ہوا اور مجبور ہو کر آپ نے انہیں اس دفعہ کی وجہ سے لوٹا دیا۔
اس کے بعد ابوبصیر بھی مکہ سے مسلمان ہوکر مدینہ آئے، لیکن کفار نے انہیں دو لوگوں کو بھیج کر بلوا لیا، مگر ہوا یہ کہ راستے میں انہوں نے ان میں سے ایک کو قتل کردیا، اور دوسرا بھاگ گیا__ اس کے بعد آپ نے سمندر کے کنارے کا سہارا لیا اور وہیں پر باغیانہ زندگی گزارنے لگے، اسی راستے سے کفار قریش کی تجارت کا مال شام جاتا تھا، جو کہ ان کی معیشت کیلئے سب سے اہم تھا، وہ اسے لوٹ لیا کرتے تھے، اب عالم یہ ہو گیا تھا کہ جو بھی مکہ میں مسلمان ہوتا اور قریش ان پر ظلم کرتے تو وہ انہیں سے جا ملتا، اور اسی طرز عمل پر زندگی گزارتا، کفار تنگ آگئے اور خود ہی مدینہ جا کر درخواست کی کہ ہم معاہدے کی اس دفعہ کا خارج کرتے ہیں، اس کے بعد سبھی مدینہ چلے آئے ____ ہمارے ملک میں بھی این، آر، سی کا یہی بھوت کفار پر سوار ہے، وہ سوچتے ہیں کہ باہر سے آنے والے ہر ایک کو پناہ دی جائے گی؛ لیکن مسلمانوں کو کیمپوں میں ڈال کر انہیں بے بس کردیا جائے گا۔
یہ بات تو سچ ہے کہ بلا کسی مذہبی تفرقہ کے گھس پیٹھئے کو اگر وہ غیر قانونی ہے، تو قانون کے دائرے میں لایا جائے؛ لیکن خصوصا مسلمانوں کے ساتھ یہ رویہ انہیں خطرناک صورت حال میں مبتلا کر سکتا ہے، ویسے بھی اسے لیکر ملک میں خانہ جنگی کی لہر چل پڑی ہے، آسام، ناگالینڈ اور میزورم میں یہ لہر طوفان نہ بن جائے؛ تو وہیں مسلمانوں میں ابوجندل اور ابوبصیر کا گروہ تیار نہ ہوجائے، اگر ایسا ہوا تو یہ ملک امن و آشتی کے بجائے کسی اندھیر میں پڑ جائے گا، معیشت ویسے بھی آخری سانس لے رہی ہے، مزید غربت اور لاچاری کا دور آسکتا ہے، پھر ۱۹۴۷ء کی سی صورت بن سکتی ہے، خون اور کٹی گردنیں عام ہو سکتی ہیں، اس کا قوی امکان ہے کہ مظلوم اپنا دفاع کرنے پر آمادہ ہو جائیں، وہ حدیں اور سرحدیں دونوں پار کرسکتے ہیں، یہ کوئی دھمکی نہیں بلکہ تاریخ ہے، بہتر ہے کہ عصبیت کا آئینہ اتار کر حقیقت کا سامنا کیا جائے، ورنہ حقیقت پھر سے دوہرائی جا سکتی ہے، اور ممکن ہے کہ وے خود ہی اس دفعہ کو خارج کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

وہ ستم پہ بھی منصف ہم وفا پہ بھی مجرم
دوست اک جہاں ان کا دشمن اک جہاں اپنا

07/10/2019

Comments are closed.