توکل علی اللہ کا مطلب

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
توکل علی اللہ یعنی اللہ پر بھروسہ کرنا اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سبب ظاہری اختیار ہی نہ کیاجائے جیساکہ اس زمانے کے توکل علی اللہ کے معنی ومفہوم سے نادان جہلاء حضرات سمجھتے ہیں، ایسے ہی کچھ جہلاء فن تفسیر کے امام امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ کے زمانے میں بھی تھے، اسی لئے امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ نے قرآن کریم کی سب سے بڑی کتاب تفسیر کبیر میں توکل علی اللہ کامعنی بیان کرتے ہوئے ان جہلاء پر ردکیا انہوں نے لکھا، وشاورھم فی الامر…پہلے نبی کو ان چیزوں میں جس کے بارے میں وحی الہی کانزول نہیں ہوا ہے صحابہ کرام سے مشورہ کاحکم اللہ نے دیا پھر آگے اللہ نے فرمایا، فتوکل علی اللہ، پھر اللہ پر بھروسہ کیجیئے، مشورہ یہ سبب ظاہری ہے، اس کواختیار کرنے کاحکم دیاگیا، پھر اللہ پر توکل کاحکم دیاگیا، اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سبب ظاہری کو اختیار نہ کیاجائے، تفسیر کبیر میں امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ نے صاف لفظوں میں لکھا، توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں جوہمارے جہلاء سمجھتے ہیں، کہ سبب ظاہری کواختیار ہی نہ کیاجائے،توکل علی اللہ کایہی معنی سردار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے، کہ پہلے جانور کوباندھ دو پھر اللہ پر بھروسہ کرو، اس سے بھی سبب ظاہری کے اختیار کرنے کے بعد توکل علی اللہ کیاجائے، لیکن اس دور جہالت میں دین کے نام پر طرح طرح کے چور ڈکیت جاہل ونادان پیداہوگئے ہیں جو دین متین کونہ سمجھتے ہیں نہ قرآن وحدیث پران کی نظر ہے، توکل علی اللہ اور دوسری چیزوں کے بارے میں گمراہ کن معنی بیان کرتے ہیں، جن سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بیزار ہے، ایسے ڈکیت اور چوروں سے ہوشیار رہیں، دین کو بغیر قرآن وحدیث پر گہری نظر کے نہیں سمجھا جاسکتا، قرآن سے ہی ہمارا ایمان بنے گا، اس لئے قرآن کے قریب آئیں، قرآن کوسمجھنے کی کوشش کریں، تبھی ہمارا ایمان بنے گا، قرآن کے علاوہ کسی بھی چیز سے ہمارا ایمان نہیں بن سکتا قرآن کے قریب آئیں ورنہ گمراہی کاشدید امکان ہے،
Comments are closed.