جمعہ نامہ : نکاح مشرق میں رحمت تو مغرب میں زحمت کیوں؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی یا ستون یعنی خاندان ازدواجی رشتے سے قائم ہوتا ہے ۔ عصرِ جدید کی معاشرت کا ایک بڑا مسئلہ زن و شو کے باہمی تعلقات ہیں ۔ ان کو درست کرنے کی خاطر بے شمار تحقیقات ہورہی ہیں ۔ کئی کونسلنگ سینٹر کھولے جارہے ہیں اس کے باوجود طلاق کی شرح میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ طلاق کے واقعات روس میں ہوتے ہیں امریکہ چودھویں نمبر پر ہے۔ پہلے بیس ممالک میں زیادہ تر کا تعلق مشرقی یوروپ سے ہے جن میں قزاقستان کے علاوہ کوئی مسلم ملک نہیں ہے۔خاندانی تنازعات کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ ہے نکاح سے متعلق مغرب اور اسلام کے نکتۂ نظر میں فرق ہے۔ مغرب میں نکاح کو ایک پابندی کے طور پر دیکھا جاتا ہے یعنی مرد اور عورت کو نکاح سے قبل جنسی ضرورت کو پوری کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے ۔ اس لیے شادی کے بعد وہ دونوں اپنے آپ کو پابند محسوس کرتے ہیں ۔ اسی لیے وہاں شادی شدہ لوگوں کو ہی جنسی بے راہ روی کی سزا دی جاتی ہے ۔ اس کا ارتکاب کرنے والے خاوند کو زوجہ کی حق تلفی اور بیوی کو شوہر کے حقوق کو پامال کرنے والا مجرم گردانہ جاتا ہے۔ شادی کے بندھن سے آزاد ہوجانے کے بعد وہ لوگ پھر سے شتر بے مہار ہوکر اِدھر اُدھر منہ مارنے کے لیے آزاد ہوجاتے ہیں۔

مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے میں جو لوگ ازدواجی پابندیوں کا پاس و لحاظ نہیں کرپاتے یا نہیں کرنا چاہتے وہ طلاق لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی تناظر میں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ امریکہ میں تعدد ازدواج پر پابندی کیوں ہے؟ اور غیر ازدواجی تعلقات کو معیوب کیوں نہیں سمجھا جاتا ؟ رسل جیسے مادہ پرست فلسفیوں نے اپنے دلائل سے فی الحال شادی شدہ ہونے کی دیوار کوبھی گرادیا ہے۔ فی زمانہ مغربی معاشرے کو یہ مصیبت دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ اس کے برعکس اسلام میں نکاح پابندی سے آزادی کا نام ہے۔ اسلامی معاشرت میں نکاح سے قبل مرد و عورت کےجنسی تعلقات قائم کرنے پر مکمل پابندی ہے۔ نکاح دراصل زوجین کو ایک دوسرے کے ساتھ یہ آزادی فراہم کرتا ہے ۔ اس لیے جہاں مغربی ممالک میں شادی کو پابندی یا زحمت سمجھاجاتا ہے وہیں اسلامی سماج اس کو رحمت سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں شادی کو ممکنہ حدتک ٹالا جاتا ہے اس کے برعکس اسلامی معاشرے میں سنِ بلوغت کے بعد اس معاملے میں عجلت کو ترغیب دی گئی ہے۔ اس طرح سماج کے اندر جنسی بے راہ روی کا سیلاب اپنے آپ رک جاتا ہے ۔ خواتین پر مظالم مثلاً چھیڑ چھاڑ بلکہ عصمت دری جیسے واقعات پر لگام لگ جاتی ہے ۔ یہ مسئلہ مسلمانوں سے زیادہ سنگین غیر مسلم سماج میں ہے اس لیے نہ صرف خود اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان کو بھی افہام و تفہیم کے ذریعہ اس سے آگاہ کرنا لازمی ہے۔

ارشادِ خداوندی ہے ’’اور اس (اللہ) کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ‘‘۔ اس آیت میں نکاح کو سکون، محبت و رحمت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ آج کل حصول رزق کے سبب نکاح میں تاخیر عام ہے جبکہ سورۂ نور میں بشارت دی گئی ہے کہ نکاح سے رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں فی الحال مغربی طرز فکر کی لاشعوری مقبولیت کے سبب جنسی جرائم میں بے شمار اضافہ ہوگیا ہے۔راجدھانی دہلی دنیا کی ’ریپ کیپٹل‘ کہلانے لگی ہے ۔ معاشرے میں اگرزناکاری عام ہوجائے تو آبرو ریزی کو بڑھنے سے روکنا ناممکن ہوجاتاہے۔ اس کو روکنے کے لیےزنا کی سخت سزا کے ساتھ نکاح کا آسان ہونا ضروری ہے کیونکہ جنسی بے راہروی اور زنا سے نجات کا سہل ترین ذریعہ نکاح ہے ۔ حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے’’زنا سے دور رہو،زنا میں یہ دس نقصانات پوشیدہ ہیں : عقل کاضعف، دین کی بربادی ، رزق میں تنگی ، عمر کی کمی ،تفرقہ و جدائی،غضبِ خداوندی ،نسیان و فراموشی میں اضافہ ، بغض و حسد کا بڑھنا، بے آبرو ہونااوردعا و عبادات کا قبول نہ ہونا۔ اس خسارے سے خود کو کون بچانا نہیں چاہتا ؟

Comments are closed.