مٹی کے پتلے کاش ہم یہ کرتے!

تحریر: آصفہ فلاحی، کرولی خورد ،اعظم گڑھ
انسان یہ نہیں جانتا ، کہ کب اسے دنیا سے، کس حالت میں کوچ کر جاناہے۔لیکن یہ ضرور جانتا ہے، کہ وہ اس دنیا سے اکیلا صرف اپنے اعمال کے ساتھ جائے گا۔ اس حقیقت سے واقف ہوکر بھی، ایک دوسرے کا برا سوچتے ہیں۔ انسان کوکیسے رہنا ہے؟ کیسے نہیں؟ اچھی طرح جانتا ہے؛ مگر افسوس جانتے ہوئےبھی؛ وہ اک دوسرے پر جھوٹا الزام اور تہمت لگا رہا ہے۔ انسان اولاد کی حیثیت سے والدین کے حقوق ادا نہیں کررہا۔انسان اپنے بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے۔
توپھراے انسان! کب تک دنیا کی رنگینیوں سے دھوکے کھاؤگے۔ اپنے آپ کو کسی کی بےعزتی سے بچاؤ۔
کسی کو تکلیف دینے سے باز آؤ۔
اے ابن آدم!اگر تمہارےپاس دولت ہے، تو اسے غلط استعمال نہ کر۔ کسی ضرورت مند کی مدد کر۔
اے اللہ کے بندے! اگر تو کا کسی بھلا نہیں کر سکتا، تو برا بھی نہ کر۔
اے نوجواں!اپنی موت کو یاد کر۔روز آنہ خود کا جائزہ لے، کہ آج ہم نے کیا غلط کیا؟اور کیا صحیح؟
دنیا کی مت سوچ!کہ کیسے رہے گااور اور دوسرے لوگ تم پر کیا طنز کریں گے؟ زندگی میں نیک ارادے سےعمل کر۔ اخوت و بھائی چارگی سے رہ۔ ایک دوسرے کے دکھ اور پریشانی میں شریک ہوجا۔ غلطیوں کو معاف کرنے والا بن جااور سب سے مل جل کر رہ، اور یہ سب اس لیے ؛ کہ ایک دن کوچ کرنا ہے۔کیوں کہ اک دن یقیناموت آئے گی اور مٹی کے اس پتلے کو اپنا شکار بناکر چلی جائے گی۔
اللہ ہم انسانوں کو معاف فرما اور خاتمہ بالخیر نصیب فرما۔
Comments are closed.