"جو کلی ہے وہ مرے دل کی طرح خاموش ہے”_

محمد صابرحسین ندوی

[email protected]
7987972043

اب چمن میں کوئی ہنسنے بولنے والا نہیں
جو کلی ہے وہ مرے دل کی طرح خاموش ہے
واقعہ یہ ہے کہ سطح زمین پر ایسے بہت سے بلکہ زیادہ تر افراد مل جائیں گے، جن کے سر پر زندگی کی عجب حقیقت گردش کرتی ہوگی، یی غور کرنے کی بات ہے، جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ گویا وہ کہہ رہے ہوں__ برسوں زندگی کا ہر نغمہ اور ہر دھن سنتے رہے اور سناتے رہے، خواب بنتے رہے اور بناتے رہے، ہر غم کو دھوئیں میں اڑاتے چلے گئے، سانسوں کے ایک کش نے سب کچھ اندر ہی جمع کر لیا اور دوسری کش نے سب کچھ ہوا میں اڑا دیا؛ یہ سب صرف اس جستجو میں رہا کہ کوئی دل کے تار کو بھی چھیڑ دے، جس سے رگوں میں گد گدی پیدا ہوجائے، نگاہیں چمک اٹھیں اور طبیعت زرخیز ہوجائے؛ لیکن وہ نغمہ نہ پایا، زمین کی شادابی، آسمان کا نیلگو ہونا اور فضا کا رومانی، موسم خوشگوار ہو یا موسم خشک ہو ہر لمحہ گزرتا ہے، اس کی خنکی اور ناخوشگواری سب بیت جاتے ہیں، بادل آئے، جم کر برس پڑے، دھوپ نے اپنی تمازت دکھائی، رات کی چاندنی بھی شباب پر رہی، سردی اور گرمی بھی اپنا اپنا رول نبھا گئے، لیکن جو نہ نبھا سکا وہ وقت کی ہم نوائی تھی، زندگی کی رعنائی تھی، لمحات کی خوشگواری تھی، وہ دل کا سرمست ہوجانا تھا، باچھیں کھل جانا تھا، کسی کا ٹوٹ کر بکھر جانا تھا، شمع کا جل کر روشن کردینا تھا، وہ سحر اور جادو کا چھاجانا تھا، جس کے بعد کسی طبیب کی ضرورت نہ ہو، کسی معالج کی حاجت نہ ہو، وہی دوا اور وہی دل بن جائے؛ لیکن حال اس کے برعکس ہے، نظام بدل گئے، ساقی بدل گئے، میخانہ بھی بدل گیا، نہ بدل سکا تو انسان کا یہ افتادہ دل_ بے چین طبعیت، بے درد سانسیں اور بےکل آہیں_ بس کسی سے امید کئے جائیے اور ستم سہتے جائیے! کسی مصور کی طرح ہر تصویر خود ہی بنائیے اور خود ہی اسے برباد کردیجیے!__
جو بن پڑے کر لیجیے؛ لیکن ان میں آرزوؤں کا لا متناہی سلسلہ ختم نہ ہوگا، اس کی طرف جانے والی وہ سڑک بھی پوری نہ ہوگی، جہاں سے امید وفا کی منزلیں شروع ہوتی ہیں، نشان حیات نظر آتا ہو، دل کی شگفتگی دکھتی ہو___ لیکن ہاں!!! رہی اس کی انتہا کی بات تو وہ شاید قبر کے دروازے پر جاکر اور آخری آرام گاہ پر سر رکھنے کے بعد ہی حقیقت رنگ لائیگی، وفائیں وہیں سے شروع ہوں گی، وہی مرحلہ بوئے وفا لائے گی، اپنے پروردگار کا عہد سچ ہوتا نظر آئے گا، دنیا کی خرابی کھل کر سامنے آئے گی، لٹی پٹی زندگی کو قرار مل جائے گا، اور وہ ساتھی جس سے خیر کی امید ہو جو انسان کا ہمدم اور ہمراز ہو وہ اس کے سامنے ہوگا__ وہاں تو ہوگا ہی جو کچھ ہونا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ دنیا کی رونقیں بھی ایسے چہروں کو قبر سے پہلے دکھا دیتی ہیں؛ مگر دیکھنے والے بھی وہی شخصیات ہوتی ہیں، جنہیں اپنے رب سے قربت کا یقین ہوچکا ہوتا ہے، ندی آنے سے پہلے جس طرح کسی رہ گزر کو ٹھنڈک محسوس ہونے لگتی ہے، وہ بوئے گل پانے لگتے ہیں، جنت کی ہوائیں ان سے ہو کر گزرتی ہیں، چلچلاتی دھوپ میں بھی وہ سکون پانے لگتا ہے، بس ایسے ہی وہ دیوانے ہوتے ہیں، وہ راہ وفا کے پروانے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کیجئے، اپنے اردگرد دیکھئے! مگر افسوس کہ ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے:
اے عشق مل سکیں گے نہ ہم جیسے سر پھرے
برسوں چراغ لے کے زمانہ اگر پھرے
11/10/2019

Comments are closed.