آرزو ہے وفا کرے کوئی__!!

محمد صابرحسین ندوی
[email protected]
7987972043
آرزو ہے وفا کرے کوئی
ہم کو چاہے خدا کرے کوئی
کوئی وفا کرے، جفا کی انتہا ہوئی، کوئی سنبھالے، بے ڈھنگی کی حدیں پار ہوئیں، کوئی پوچھے، کوئی ٹوکے، بے پرواہی کی زندگی رائیگاں ہوئی، صبح و شام ہوتی ہے اور عمر تمام ہوتی جاتی ہے، چوبیس گھنٹوں کا دورانیہ وقت کے اختتام کا پیغام سناتا جاتا ہے، گھڑی کی ٹک ٹک آگاہ کرتی جاتی ہے؛ مگر منزلیں مفقود ہیں، راہیں مسدود ہیں، امیدیں بکھری جاتی ہیں، دل مچلتا جاتا ہے، بے ایمانوں کی دنیا، ظالموں کی دنیا، بے دردوں کی دنیا، ہوس پرستوں کی دنیا، مفاد پرستی اور خود غرضی کی دنیا، دوست کے چہرے_ دشمن کا کردار، میٹھی بولی بغل میں چھری، زبان پر واہ واہ دل میں کراہ_ ظاہر آئینہ سے زیادہ اور باطن شاید کیچڑ سے بھی بدتر_ متعفن اور بدبودار کہ کوئی تھوکنا بھی پسند کرے، نام کے فاتح کام کے پست، عہدہ کی مارا ماری، شہرت کی بھوک، شکم سیرہ ہی عبادت اور جاہ پروری ہی معبود_ اس رنگین دنیا میں سب کچھ ہے، بس وفا کی کمی ہے، دل لگی کی کمی ہے، جگر کے ٹکڑوں کو سمیٹنے والے اور دل کا خون ایک کرنے والے کی تلاش ہے، محبت کا نغمہ اب کانوں کو نہیں ملتا، دل پر وہ سنگیت اور وہ نغمگی اب چھاپ نہیں چھوڑتی، اداسی کی لپٹ میں، زندگی کی کشمکش میں اور دل کی الجھنوں نے زندگی کا لطف ختم کردیا، ہر ابتدا اپنے اول طلوع سے ہی غروب کی طرف مائل ہے، اٹھا نہیں کہ گرنے کی نوبت ہے، زخم سلتے نہیں کہ اگلا زخم تیار رہتا ہے، زندگی کی ایک گتھی سلجھتی ہے؛ کہ دوسری الجھ جاتی ہے، گانٹھ پر گانٹھ ہے، کہاں تک کھولیے؟ کہاں تک سنواریے؟ زلفوں کی پراگندگی پر کہاں تک محنت کیجیے؟
زندگی کے ان مصائب اور قابل رحم زلفوں کو کتنا ہی باندھیے، بنائیے؛ لیکن پھر یونہی ہر عقدہ کھل جاتا ہے، ایسے ہی منتشر ہوجاتا ہے، وہی بوسیدگی طاری ہوجاتی ہے، جدیت کی صرف تلاش ہے؛ لیکن کوئی پتہ نہیں، بدلاو کا کوئی سراغ نہیں، وہی کھٹر وہی پٹر___ اور کچھ نہیں۔ ہر چھیننے اور جھپٹنے کی پالیسی ہے، اپنا الو سیدھا کرنے کا شور ہے، جس کیلئے ہر طرف تلواریں چل رہی ہیں، خنجر لہرا رہے ہیں، غضب کا سینہ ہے، خنجر برداشت بھی کر جائیں؛ لیکن ستم کیسے برداشت کریں؟ ریشہ دوانیاں کیسے چھپائیں؟ اپنوں ہی کا نشتر کیسے جھیل جائیں؟ اس میں صرف زخم نہیں کہ دوا لگا دی بلکہ وہ سوز ہے، جس کی کوئی دوا نہیں، جس کا کوئی علاج نہیں، سچ ہے کہ ظلم کا پہاڑ بھی اٹھا لیں، اپنے دوش ناتواں پر وہ بھی سہی؛ لیکن وقت کی خموشی اور زندگی کا جمود، راہ وفا کی بے پرواہی کا کیا کریں؟ دل کو اب مرغ بسمل کہیے! راہ عشق کا مظلوم کہیے! منزل وفا کا بھٹکا سپاہی سجھیے! اپنی معصومیت میں قربان جانے والا نادان مانیے! جو ہر مشاق کے ہاتھوں کا کھلونا ہے، ہر ماہر کی قلعہ بازی کا ہتھکنڈہ ہے، آنکھیں بھی تھکتی جاتی ہیں، راہوں پر کبھی اس نے بھی خوب انتظار کیا، پلکیں بھی بچھائیں، خوب ڈھونڈا، تلاش کیا، جستجو کی؛ لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا، سرگرداں رہے، سر دھنتے رہے کوئی تو ہوگا؟ کہیں تو ہوگا؟ یہاں تک کہ مایوسی ہوئی، ناکامی ہوئی؛ لیکن وہ قدر کہاں؟ وہ قیمت کہاں؟ وہ وفا کہاں؟
10/10/2019
Comments are closed.