Baseerat Online News Portal

مولانا قاری مشتاق احمد پرتابگڈھی رحمۃ اللہ علیہ : نقوش و تاثرات

 

محمدشاہد الناصری الحنفی

ابھی کچھ دیرپہلے موبائیل ہاتھ میں لیا تو دومس کال تھا ایک محترم بھائ جاوید صاحب پرتابگڈھی کا (برادر زادہ قاری صاحب مرحوم )

دوسرا محب مخلص قاری بدرعالم صاحب (تلمیذ رشید قاری صاحب مرحوم) کا ۔ بات سمجھ میں آگئ کہ قاری صاحب کی رحلت کی اطلاع کیلئے سماعت کو تیارکر لینا چاہیے۔ اورہوا بھی وہی کہ انہوں نے بتایا کہ بارہ اکتوبر کی صبح 7 بجےحضرت مولانا قاری مشتاق احمد صاحب کو رحمن الدنیا والآخرتہ نے اپنے حضور بلا لیا۔رحمتہ اللہ ورحمتہ واسعہ۔

دل کی بات زبان پر اب اس طرح آرہی ہے کہ ایک روشن چراغ تھا نہ رہا۔ اور اس موقع پرمجھے ایک حدیث بھی یادآرہی ہے کہ ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشادفرمایا ۔یقینااللہ تعالی کے کچھ نیک بندے اللہ والے ہیں ۔عرض کیاگیا۔ یارسول اللہ ۔اہل اللہ اوراللہ کے خاص بندے کون ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ۔قرآن مجید کے حفاظ اہل اللہ اوراللہ کے خاص محبوب بندے ہیں۔

اس حدیث کی روشنی میں بلا تکلف یہ عرض کررہاہوں کہ حضرت مولانا قاری مشتاق احمد صاحب بھی اہل اللہ اوراللہ کے خاص بندے تھے ۔ حضرت قاری مشتاق احمد پرتابگڈھی مرحوم ۔ سلطان الاولیاء مرجع العلماء قطب عالم حضرت مولانا شاہ محمداحمد صاحب پرتاپگڈھی قدس سرہ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔اوراس وقت حضرت مرشدی کی آخری یادگارتھے

قاری صاحب مرحوم سے ہماراتعلق توظاہر ہے کہ مرشد زادہ ہونے کی وجہ سے تھا مگرقاری صاحب فرماتے تھے کہ آپ سے دووجہ سے محبت کرتاہوں اولا یہ کہ ابا آپ کوبہت چاہتے تھے آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اورثانیا یہ کہ آپ خود مشائخ واولیاء اللہ کے خانوادے کے چشم وچراغ ہیں ۔اوراب محبت وتعلق اورقدردانی میں اس لئے مزیداضافہ ہوگیاہے کہ ممبئ جیسے شہر میں آپ قرآن پاک کامسابقہ کرتے ہیں اورقرآن کی محفل سجاتے ہیں اورقوم کے کمسن حفاظ وقراء کو بلاکر ان کا اعزاز واکرام کرتے ہیں ۔ آپ کے اس عمل سے میں بہت خوش ہوں اوردل سے دعائیں کرتاہوں ۔قاری صاحب مرحوم کی گفتارورفتار اورنششت وبرخواست بھی ادھربرسوں سے بعینہ حضرت مرشد گرامی رح کی طرح ہوگئ تھی۔

خاکسارنے بطورخاص ممبئ کے مسابقہ میں حضرت قاری صاحب اوران کے منجھلے بھائ مرحوم الحاج ارشاد احمد صاحب کو بلایاتھا ان دونوں کے ہمراہ ان کے صاحبزادگان بھائ قاری امتیاز احمد اوربھائ جاوید صاحبان بھی تھے ۔ اس مسابقہ کی رونق دیگر تقاریب سے کچھ زیادہ ہی دوبالا تھی کہ اس میں ہمارے مرشد کے دونوں صاحبزادے بنفس نفیس خود موجود رہ کر اپنے والد حضرت مولاناشاہ محمد احمد پرتابگڈھی قدس سرہ کے فیض کانظارہ کررہے تھے۔ اور مسرت بالائے مسرت کی بات یہ تھی کہ دارالعلوم ندوت العلماء لکھنوء کے ناظم حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی مدظلہ ۔حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ جیسے نابغئہ عصر حضرات بھی موجودتھے۔

حضرت قاری صاحب مرحوم کو مسابقہ کا انداز اور حفاظ وقراء کی ضیافت واکرام کے نظم وضبط بہت پسندآئے اور بطورخاص خاکسار کے برادران مفتی قاری محمدساجد ناصری اورمفتی قاری محمدزاہد ناصری صاحبان کی تلاوت اورطرق وانداز تحکیم سے اتنے زیادہ متاثر ہوئے کہ اپنے ادارہ مدرسہ عالیہ عرفانیہ لکھنوء میں ہونے والے کل ہند مظاہرہ قرات میں ان دونوں برادران کو مدعوکیا ۔مگر یہ حضرات شریک نہیں ہوسکے البتہ خاکسارشریک ہوا۔ اورحضرت قاری صاحب نے خاطر مدارت اورتواضع کاوہی انداز اختیارکیا جوکبھی حضرت مرشد یعنی ان کے والد عالی مرتبت کاہواکرتاتھا۔

قاری صاحب مرحوم نہ صرف یہ کہ عالی دماغ تھے بلکہ وہ اس زمین پر ایک روشن چراغ کے مانند تھے جس کی روشنی میں جہاں بہت سارے طلباء نے علوم نافعہ میں کمال حاصل کیا وہیں ملت اسلامیہ کے عام طبقات نے بھی اپنے دیگرمسائل میں قاری صاحب کی ذات بابرکات سے روشنی حاصل کیا۔

عصری تعلیم کیلئے بعد میں درسگاہ قائم فرمایا پہلے قرآن وسنت کی نشرواشاعت اوراس۔کے علوم وفنون کو عام کرنے اورملت اسلامیہ کے نونہالوں کو ان علوم سے آراستہ کرنے کی خاطر مدرسہ عالیہ عرفانیہ قائم فرمایا ۔جہاں سے بلامبالغہ بے شمار طلاب نے علوم اسلامیہ کاعرفان حاصل کیا ۔

ادھرچندبرسوں سے قاری صاحب کی طبیعت گاہے گاہے مسلسل خراب ہوتی رہی اورپھر بفضل الہی صحت بھی ہوجاتی اورایسا معلوم ہوتا کہ وہ بیمارہی نہیں رہے ۔ جیساکہ ابھی ہفتہ عشرہ پہلے محبی قاری بدرعالم صاحب نے بتایا کہ قاری صاحب کی طبیعت ابھی بہت اچھی ہے ۔ مگرکیاخبر کہ یہ تمہید تھی سفرآخرت کی کہ وہاں جاکر بھی ان شاء اللہ اچھے رہیں گے۔

قاری صاحب مرحوم کی زندگی سادگی وخودداری اور علمی وقاروتمکنت سے معنون ومنسوب تھی ۔ استغناء ان کی زندگی کاخاصہ تھا جاہ وجلال اورقدرومنزلت میں وہ ممتاز تھے ۔ شہر میں ان کی عظمت کے نقوش نمایاں تھے ۔ اعیان شہر اورسرکاری محکموں کے رؤسا حضرات بھی قاری صاحب کے یہاں کی حاضرباشی کواپنے لئے سعادت تصور کرتے تھے ۔ممبئ حج کمیٹی سے جب حج میگزین جاری کیاتھا تواس وقت بھی کمال مسرت کااظہارکرتے ہوئے بہت دعاؤں سے نوازاتھا ۔اس کے بعد جب ادارہ دعوتہ السنہ سے ماہنامہ مکہ میگزین جاری کیا اور اس کاانتساب مرشدی حضرت پرتابگڈھی علیہ الرحمہ سے کیا اوراس کی اطلاع قاری صاحب کو دیا توبہت پرمسرت انداز میں گویا ہوئے کہ الحمد اللہ ابا کی دعائیں کام آرہی ہیں اوران شاء اللہ آپ کومزید ترقیات حاصل ہوں گی ۔ میں بھی برابر دعاکررہاہوں ۔

مکہ میگزین بہت پیارا اوربابرکت نام ہے اس کااجراء مبارک ہو۔

قاری صاحب کی گفتگوکاانداز ایسا تھا جیساکہ خود حضرت مرشد رح ہی بول رہے ہوں بے خودی کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ ہمارے مرشد حضرت پرتابگڈھی قدس سرہ کاحال بھی کچھ ایساہی تھا کہ پہلی ملاقات میں ہی آدمی یہ محسوس کرتا کہ پرانی شناسائ ہے۔اور عام گفتگو میں بھی کمال کی لذت ملتی اورخاص گفتگو میں تو اہل محفل نہال ہی ہوجاتے تھے۔ ع

عجب عالم ہوا اللہ اکبراہل محفل کا ۔

حدیث عشق کی احمد نے جب بھی شرح فرمائ ۔

جن لوگوں نے حضرت مرشدی رح کودیکھا ہوگا وہ اس کی تصدیق کریں گے کہ قاری صاحب کا سراپا بھی آخری زمانے میں ہوبہو اپنے والدعالی مرتبت کی طرح ہوگیاتھا ۔ یہی حال منجھلے صاحبزادے جناب الحاج ارشاداحمد مرحوم کا بھی انتقال سے پہلے ہوگیاتھا کہ بسا اوقات شبہ ہوتا کہ حضرت مرشدی قبرسے اٹھ کر آگئے ہیں ۔

یہ اللہ کی مشیت بالغہ ہے کہ آدمی کو اپنے اصل کی طرف لوٹا دیاجاتاہے روایت ہے کہ جنت میں بھی جب اہل اللہ اوراہل ایمان اپنے بعض رفقاء یاذریات کونہیں پائیں گے تواللہ کے حضور درخواست پیش کریں گے کہ یارب ہمارے فلاں فلاں کوبھی جنت میں ہمارارفیق بنادیجیے چناں چہ اللہ پاک اس درخواست کوشرف قبولیت سے نوازتے ہیں اوراس کے رفیق کی مصاحبت سے اس کو نواز دیاجاتاہے ۔ الھم اجعلنا منھم

اسی لئے خود اللہ سبحانہ نے صالحین کی صحبت کے تعلق سے فرمایا ۔ وحسن اولئک رفیقا ۔

اللہ پاک ہم لوگوں کوصالحین کی معیت سے سرفراز فرمائے آمین ۔

الغرض کل من علیھا فان کے مصداق عصرحاضر کایہ روشن چراغ جو قاری مشتاق احمد پرتابگڈھی کی شکل میں تقریبا اسی سالوں سے ملت اسلامیہ کے دروبام کوروشن کئے ہوا تھا بالآخر جواررحمت میں جاکر اپنی روشنی کو دنیاوالوں سے معدوم کرگیا اورزبان حال سے کہ گیا کہ ۔ ع۔ ڈھونڈوگے مجھے ملکوں ملکوں ملنے کہ نہیں نایاب ہیں ہم

Comments are closed.