علماء کا گروہ بدترین گروہ ہوگا____!!!

محمد صابرحسین ندوی
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
یہ تصور بھی حیران کن ہے کہ کسی عالم سے کوئی فتنہ سرزد ہو، جو علم نبوت کا پرتو ہو، جس نے قال اللہ اور قال الرسول کی مشق کی ہو، جو اساتذہ اور وعلم و دانشکدہ میں سالہا سال گزار چکا ہو، دن رات علمی فضا میں سانس لیتا ہو، اس کی ذات سے معاشرے یا ملک اور قوم کیلئے کسی بھی ادنی اذیت کی فکر گناہ کے مترادف معلوم ہوتی ہے، جن کیلئے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرمار ہو، جن کیلئے زمین و آسمان کا ہر مخلوق دعا گو ہو، فرشتے اپنے پر بچھاتے ہوں، جو عام زبانوں میں مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلاتے ہوں، وہ بھی اگر مضر ثابت ہوجائیں اور انہیں روئے زمین کا ابتر کہا جائے تو کیا کہئے! ایک حدیث ہے جس کے اندر قیامت کے قریب کی بہت سی نشانیاں بتائی گئی ہیں، ان میں ایک اہم نشانی بتاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:علماؤهم شر مَن تحت أديم السماء ، مِن عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود(الكامل: ۴/۲۲۷_شعب الإيمان:۳/۳۱۷_۱۸) یعنی قرب قیامت سب سے بدترین مخلوق علماء کرام کی ہوگی، ان سے فتنہ جنم لیں گے وہ فتنوں کے بانی ہوں گے، ان کا وجود فتنہ بن جائے گا۔
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، اہل علم نے اس پر کلام کیا ہے؛ لیکن اس بات کی گنجائش ضرور ہے کہ اس میں کچھ تو سچائی ہو، بالخصوص اس کے معنی و مستدلات اگر عصر حاضر میں دیکھے جائیں، تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ روایت بہت حد تک درست ہے، علم و عمل کا سرچشمہ خشک ہوتا نظر آتا ہے، اہل علم کے اندر شر ایسے غالب دکھائی دیتا ہے جیسے وہ کسی عام مزدور سے بھی بدتر ہوں، ایک وہ شخص یومیہ مزدوری کرتا ہے اور اپنے اہل و عیال کی پرواہ کرتا ہے، اگرچہ وہ دینی فرائض میں کوتاہی کرتا ہو لیکن اس کی ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوتا، وہ امت کے سرمایہ کو چوٹ نہیں پہونچاتے، اور ایک وہ ہیں جن کی ذات شرور و فتن کی پہچان بن گئی ہو، شریف چہرہ مہرہ لئے خطرناک کردار اور بھیانک نتائج کا مالک بن گیا ہو، جھوٹ اور فریب جن کی رگوں میں خون بن کر دوڑتے ہوں، جن سے خیر کوسوں دور بھاگتے ہوں تو ایسے میں کیوں نہ کہا جائے؛ کہ یہ بدترین مخلوق ہیں اور قرب قیامت ان سے ابتر کوئی نہ ہوگا؟ وہ فتنوں کا مرکز اور علم کے لبادے میں علم دشمن ہوں گے؟
جو چاہتے ہیں کرتے ہیں جب چاہتے ہیں وہ
دن چاہئے نہ_______ ان کیلئے رات چاہئے
تاریخ میں درباری علماء کا فتنہ پڑھتے ہیں، یا کسی اہل علم کے بارے میں سازشوں کا طومار پاتے ہیں تو نگاہیں کام کرنا بند کر دیتی ہیں، دل حیران و شششدر رہ جاتا ہے؛ کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک قرآن و حدیث کا حامل اس قدر گر سکتا ہے، روح کو پاک، مصفی اور باطن کا تصفیہ کرنے والا اتنا ذلیل ہو سکتا ہے، ہر گز نہیں_ بالکل نہیں____!!! مگر ٹھہرئے_ زیادہ دور جانے کی صرورت نہیں، تاریخ کے صفحات الٹ کر خود کو عرق آلود کرنے کی بھی حاجت نہیں؛ بلکہ معاصرین علماء پر نگاہ ڈالئے! دجال اور فتنہ پروروں کی کوئی کمی نہیں ہے، گناہ کبیرہ ان سے یوں سرزد ہوتے نظر آئیں گے؛ کہ جیسے عام شخص سے بھی اس کا تصور نہیں، وہ ضلالت اور رذالت کی انتہا پر ہوں گے، اپنے معمولی مقاصد کی تکمیل کیلئے عہدوں اور مناصب کو ہتھیانے کیلئے وہ اس حد تک جا چکے ہوں گے؛ کہ کسی ادنی اہل ایمان سے بھی اس کا تصور نہ ہوگا، ہر طرف خواہشات کا جال بچھا ہوا ہے، اپنی مرضیات کا سیلاب آیا ہوا ہے۔
امت کی کوئی پرواہ نہیں، بس ڈھونگ ہے، درد کی آڑ مین شکم سیری کا بند و بست ہے، خدمت کے نام پر دکانیں ہیں، اصلاح اور مصالحت کے بینر تلے ہوی و ہوس پرستی کا بول بالا ہے، رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں، نااہلوں کا زور بڑھتا جارہا ہے، علم و عمل کے مراکز کو آگ لگایا جارہا ہے، جہلاء علم کے بھیس میں عہدوں پر بیٹھ گئے ہیں، خود بھی گمراہ ہو رہے ہیں اور دنیا کو بھی گمراہ کئے جارہے ہیں، حقیقی علماء کیلئے زمین تنگ کردی گئی ہے، ان کیلئے کوئی راہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ کسی غار کی پناہ لیں، لوگوں سے دور ہو جائیں اور اسی زمانہ جاہلیت کے جوگی کی طرح گزر بسر کرجائیں جو آبادی سے دور جا کر ہی عافیت میں رہا کرتے تھے، جہلاء کا دور ہے، کم علموں نے بازی مار لی ہے، پورا کا پورا آوی بگڑ چکاہے، قیامت کے بدترین مخلوق زمین پر رینگنے لگے ہیں، سلامتی دھنوڈئے، پناہ مانگئے اور خود کو بچا لیجئے! ورنہ اس دھارے میں آپ بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔
12/10/2019
Comments are closed.